مترادفات القرآن (ا)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اختیار (رکھنا)

اس کے لیے خيرة ، ملك ، ولاية اور امکن کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔
1: خيرة
خیر
یعنی اچھا اور بہتر اور خيرة اور اختار یعنی دو یا زیادہ چیزوں میں سے کسی اچھی چیز پسند کر لینا، چن لینا یا اختیار کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے
وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّلَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِيَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡؕ وَمَنۡ يَّعۡصِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِيۡنًا‏ (سورۃ الاحزاب آیت 36)
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی بات طے کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے وہ بالکل گمراہ ہو گیا۔
2: ملک
ملک
ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی کے قبضہ میں ہوا اور کسی دوسرے کا اس میں تصرف کرنے کا اختیار نہ ہو اور ملک اور ملک دونوں اس لحاظ سے ہم معنی ہیں (مف) یعنی ملک ایسی چیز میں اختیار کو کہتے ہیں جو اپنی ملکیت اور قبضہ میں ہو (اور ملک بادشاہ کو کہتے ہیں کہ پبلک اس کے قبضہ اور تصرف میں ہوتی ہے اور وہ اس کا منتظم ہوتا ہے) قرآن میں ہے:
قَالُوۡا مَاۤ اَخۡلَـفۡنَا مَوۡعِدَكَ بِمَلۡكِنَا وَلٰـكِنَّا حُمِّلۡنَاۤ اَوۡزَارًا مِّنۡ زِيۡنَةِ الۡقَوۡمِ فَقَذَفۡنٰهَا فَكَذٰلِكَ اَلۡقَى السَّامِرِىُّۙ‏ (سورۃ طہ آیت 87)
وہ بولے: ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کی مگر (ہوا یہ کہ) قوم کے زیورات کے بھاری بوجھ ہم پر لاد دیئے گئے تھے تو ہم نے انہیں (آگ میں) ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے (بھی) ڈال دیئے
یعنی سامری فریب سے ہم سے زیورات لے کر اور بچھڑا بنا کر کچھ اس طرح ہم پر مسلط ہو گیا تھا کہ ہمیں اپنی مرضی سے اپنی چیزوں میں بھی تصرف کرنے کا اختیار ہی نہ رہا۔
3: ولاية
(و مفتوحہ کے ساتھ، اور اگر و مکسورہ یعنی ولایت ہو تو اس کا معنی ملک، سلطنت یا بادشاہی ہے) اور ولایہ بمعنی کسی کام کا متولی ہونا (مف) ، اور الولاء بمعنی وہ میراث ہو اپنے آزاد کردہ غلام سے حاصل ہو (مف) اور ولایة کا لفظ قرآن میں وراثت کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ مہاجرین اولین اور انصار میں جب مواخاۃ کا سلسلہ قائم ہوا تو وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے لیکن بعد میں یہ احکام ختم کر دئیے گئے اور حقیقی وارثوں کو ہی اصل وارث قرار دیا گیا۔
نیز قرآن نے مولی (جمع موالی) وارث کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَلِكُلٍّ جَعَلۡنَا مَوَالِىَ مِمَّا تَرَكَ الۡوَلِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ عَقَدَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ فَاٰتُوۡهُمۡ نَصِيۡبَهُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ شَهِيۡدًا (سورۃ النساء آیت 33)
اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو حقداروں میں تقسیم کر دو کہ ہم نے ہر ایک کے حقدار مقرر کر دیئے ہیں۔ اور جن لوگوں سے تم عہد کر چکے ہو ان کو بھی ان کا حصہ دو۔ بیشک اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔
گویا ولایة کا لفظ ملک سے بہت زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
هُنَالِكَ الۡوَلَايَةُ لِلّٰهِ الۡحَـقِّ‌ؕ هُوَ خَيۡرٌ ثَوَابًا وَّخَيۡرٌ عُقۡبًا (سورۃ الکہف آیت 44)
یہاں سے ثابت ہوا کہ حکومت سب اللہ کی ہے جو معبود برحق ہے وہی بہترین ثواب عطا کرنے والا اور بہترین انجام لانے والا ہے۔
4: امکن
مکان
بمعنی جگہ، موضع، درجہ اور امکن اور مکّن دونوں کے معنی کسی کو کسی جگہ پر قدرت دینا ۔ اختیار دیا اور قادر بنانا ہے (منجد) اور امکن الامر بمعنی کسی کام کو ممکن اور آسان بنانا ہے۔ (منجد) گویا امکن میں اختیار کے ساتھ جگہ یا مقام کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَاِنۡ يُّرِيۡدُوۡا خِيَانَتَكَ فَقَدۡ خَانُوا اللّٰهَ مِنۡ قَبۡلُ فَاَمۡكَنَ مِنۡهُمۡؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ (سورۃ الانفال آیت 71)
اور اگر یہ لوگ تم سے دغا کرنا چاہیں گے تو یہ پہلے ہی اللہ سے دغا کر چکے ہیں تو اس نے انکو تمہارے قبضے میں کر دیا۔ اور اللہ دانا ہے حکمت والا ہے۔
ماحصل:
  • خيرة: دو یا زیادہ چیزوں میں سے ایک کے کو انتخاب کر لینے کا اختیار۔
  • ملک: کسی چیز میں تصرف کرنے کا اختیار۔
  • ولایۃ: کسی چیز کے جملہ اختیارات کا کسی شخص کے قبضہ میں ہونا۔
  • امکن: جب اختیار میں مقام یا جگہ کا تصور بھی موجود ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اختیار کرنا

کے لیے استحبّ اور تحرّی کے الفاظ قرآن کریم میں آتے ہیں۔
1: استحبّ
حبّ
بمعنی محبت اور استحبّ بمعنی ایسی چیز کو اختیار کرنا جسے اختیار کرنے کو انسان کا جی بھی چاہتا ہو۔ ارشاد باری ہے:
یٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰبَآءَكُمۡ وَاِخۡوَانَكُمۡ اَوۡلِيَآءَ اِنِ اسۡتَحَبُّوۡا الۡـكُفۡرَ عَلَى الۡاِيۡمَانِ‌ؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاُولٰۤٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ (سورۃ التوبہ آیت 23)
اے اہل ایمان! اگر تمہارے ماں باپ اور بہن بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو۔ اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں۔
2: تحرّی
(حرو) احری
بمعنی لائق تر (م ق) اور تحری بمعنی استعمال میں زیادہ مناسب و لائق کو طلب کرنا۔ دو چیزوں میں سے زیادہ بہتر کو طلب کرنا (منجد) قرآن میں ہے:
وَّاَنَّا مِنَّا الۡمُسۡلِمُوۡنَ وَمِنَّا الۡقٰسِطُوۡنَ‌ؕ فَمَنۡ اَسۡلَمَ فَاُولٰٓٮِٕكَ تَحَرَّوۡا رَشَدًا‏ (سورۃ الجن آیت 14)
اور یہ کہ ہم میں سے (بعض) فرماں بردار بھی ہیں اور ہم میں سے (بعض) ظالم بھی ہیں، پھر جو کوئی فرمانبردار ہوگیا تو ایسے ہی لوگوں نے بھلائی طلب کی
ماحصل:
دو یا زیادہ چیزوں سے ایسی چیز کو اختیار کرنا جو جی کو بھائے تو یہ استحبّ ہے اور اس چیز کو اختیار کرنا جو فی الواقعہ مناسب اور لائق تر ہو تو یہ تحری ہے۔ نیز دیکھیے پسند کرنا اور چن لینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ادھار

کے لیے قرض اور دین کے الفاظ قرآن میں استعمال ہوتے ہیں ۔
1: قرض
قرض
ایسا ادھار جو انسان اپنی احتیاجات کے لیے کسی دوسرے سے لیتا ہے اور امام راغب کے مطابق وہ مال جو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائے گا۔ (مف) اور صاحب منتہی الارب اس پر اس شرط کا بھی اضافہ کرتے ہیں کہ ایسا ادھار جس کی ادائیگی کے لیے مدت مقرر نہ کی گئی ہو۔ (م ا) اگر مدت مقررہ ہو تو یہ دین ہے۔ اس پر دلیل یہ آیت ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَايَنۡتُمۡ بِدَيۡنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكۡتُبُوۡهُ (سورۃ البقرۃ آیت 282)
مومنو! جب تم آپس میں کسی معیاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اسکو لکھ لیا کرو۔
اور دین سے مراد لین دین کی تمام تر ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ گویا یہ لفظ قرض سے عام ہے۔ یہ تجارتی اغراض کے تحت بھی لیا جا سکتا ہے۔ اور ذاتی ضرورتوں کے لیے بھی۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک آدمی نے لوگوں کو پانچ ہزار روپے ادا کرنے ہیں۔ اور ساتھ ہی آٹھ ہزار لینے بھی ہیں ۔ تو وہ مدیون تو ضرور ہے لیکن مقروض نہیں ہے۔ اور اگر اس نے آٹھ ہزار ادا کرنے ہیں اور پانچ ہزار لینے ہیں تو وہ مدیون بھی ہے اور مقروض بھی۔ اور اگر کسی شخص نے ذاتی ضروریات کے لیے قرض کسی مقررہ مدت پر لیا ہے تو اس نے مقررہ وقت پر قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر لی ہے تو یہ قرض نہیں بلکہ دین ہے کیونکہ قرض کا لفظ جہاں کہیں قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ اکثر ساتھ حسنا کا لفظ بھی آیا ہے اور قرض حسنہ کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ :
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ‌ (سورۃ البقرۃ آیت 280)
اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو اسے کشائش کے حاصل ہونے تک مہلت دو۔
اور ایسے قرض کو اللہ تعالی قرض حسنہ فرماتے ہیں اور خود قرض لینے سے منسوب فرماتے ہیں حالانکہ یہ دیا تو صاحب احتیاج لوگوں کو ہی جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
مَّنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَلَهٗۤ اَجۡرٌ كَرِيۡمٌ (سورۃ الحدید آيت 11)
کون شخص ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دے تو وہ اس کے لئے اُس (قرض) کو کئی گنا بڑھاتا رہے اور اس کے لئے بڑی عظمت والا اجر ہے
اس لحاظ سے ہر قرض دین ہوتا ہے۔ لیکن ہر دین قرض نہیں ہوتا ۔ (فق ل 140)
ماحصل:
  • قرض: ذاتی احتیاجات کے لیے واپسی کی شرط پر اور قرض حسنہ غیر معین دلت کے لیے۔
  • دین: کسی بھی طرح کی ادائیگی اور اس کی ذمہ داری کو کہتے ہیں خواہ یہ ادائیگی تجارتی قرضہ کی ہو یا ذاتی قرضہ کی یا کسی دوسری چیز کی۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ارادہ کرنا (قصد کرنا)

کے لیے اراد (رود)، ہمّ، عزم، ابرم ، امّ، تیمّم (یم) اور تحرّی (حری) کے الفاظ قرآن کریم میں آتے ہیں۔
1: اراد
رود
بمعنی کسی چیز کی تلاش میں آنا جانا (م ا) اور اراد بمعنی کسی بات یا کام کے کرنے کا دل میں خیال آنا (مف) اور اسے چاہنا۔ (ضد کرہ) (فق ل ۱۰۳) ارشاد باری ہے:
اِنَّمَاۤ اَمۡرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔـا اَنۡ يَّقُوۡلَ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ‏ (سورۃ یس آیت 82)
اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے: ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے)
2: همّ
جب کوئی ارادہ کچھ وقت دل میں رہے اور انسان اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے غور و فکر اور سوچ و بچار کرتا ہے تو اسے ھم سے تعبیر کیا جائے گا (مف) ارشاد باری ہے:
اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّكَثُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ وَهَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ وَهُمۡ بَدَءُوۡكُمۡ اَوَّلَ مَرَّةٍ‌ (سورۃ التوبہ آیت 13)
بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر کو وطن سے نکالنے کا ارادہ کر لیا اور انہوں نے تم سے عہد شکنی کی ابتداء کی۔
3: عزم
پھر جب ایسے ارادہ پر سوچ بچار کے بعد ایک قطعی فیصلہ کر لیا جائے تو اسے عزم کہتے ہیں۔ ابن الفارس کے الفاظ میں یدل على العزيمة والقطع (م ل) یعنی پختہ ارادہ بنا لینا۔ پھر اس کو پورا کرنے کی ٹھان لینا۔ ارشاد باری ہے:
فَاعۡفُ عَنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ وَشَاوِرۡهُمۡ فِىۡ الۡاَمۡرِ‌ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَوَكِّلِيۡنَ‏ (سورۃ آل عمران آیت 159)
سو ان کو معاف کر دو اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت مانگو اور اپنے کاموں میں ان سے مشورت لیا کرو۔ اور جب کسی کام کا پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بیشک اللہ بھروسہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
4: ابرم
برم
بمعنی دو رسیوں کو ملا کر بٹنا اور ابرم بمعنی کسی کام یا معاملہ یا چیز کو مضبوط بناتا ہے (م ل، م ا) اور اس کی ضد نقض ہے اور ابرام بمعنی کسی عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تدابیر اختیار کرنا، منصوبہ بندی کرنا اور اسے آخری شکل دینا۔ ارشاد باری ہے:
اَمۡ اَبۡرَمُوۡۤا اَمۡرًا فَاِنَّا مُبۡرِمُوۡنَ‌ (سورۃ الزخرف آیت 79)
کیا انہوں نے (یعنی کفّارِ مکہ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کوئی تدبیر) پختہ کر لی ہے تو ہم (بھی) پختہ فیصلہ کرنے والے ہیں
اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے جو کفار مکہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اور اللہ کا یہ منصوبہ تھا کہ وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان سے بچا لے گا۔
5: امّ
بمعنی کسی راستے یا سفر کا ارادہ کرنا (م ا) اور امام راغب کے نزدیک سیدھا مقصد کی جانب متوجہ ہونا اور کسی طرف مائل نہ ہونا ہے۔ ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآءِرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهۡرَ الۡحَـرَامَ وَلَا الۡهَدۡىَ وَلَا الۡقَلَٓاٮِٕدَ وَلَاۤ آٰمِّيۡنَ الۡبَيۡتَ الۡحَـرَامَ (سورۃ مائدہ آیت 2)
اے ایمان والو! اﷲ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرمِ کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور نہ مکّہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ حرمت والے گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا قصد کرکے آنے والوں (کے جان و مال اور عزت و آبرو) کی
6: تيمّم
صاحب منتہی الارب کے نزدیک یہ لفظ در اصل تامّم تھا جو امّ سے مشتق ہے اور ابن الفارس اس کا مادہ تمّ قرار دیتے ہیں یعنی عمداً اور قصداً کوئی کام کرنا (م ل) گویا یہ لفظ ایسے امور سے متعلق ہے جہاں سوچ و فکر اور مشورہ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ احکام شرعی کی تعمیل کا قصد کرنا مراد ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں یہ لفظ دو دفعہ استعمال ہوا ہے۔ ایک دفعہ امر کے لیے اور دوسری دفعہ نہی کے لیے۔ ارشاد باری ہے:
فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَيَمَّمُوۡا صَعِيۡدًا طَيِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡهِكُمۡ وَاَيۡدِيۡكُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوۡرًا‏ (سورۃ النساء آیت 43)
پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے۔
7: تحرّ
حری
بمعنی سزاوار اور تحرّی بمعنی راه صواب ترین جستن “ (م ا) یعنی بہترین راہ کی تلاش کرنا اور بمعنی زیادہ مناسب اور لائق کو طلب کرنا۔ دو چیزوں میں سے زیادہ بہتر کو طلب کرنا ۔ (منجد) ارشاد باری ہے:
وَّاَنَّا مِنَّا الۡمُسۡلِمُوۡنَ وَمِنَّا الۡقٰسِطُوۡنَ‌ؕ فَمَنۡ اَسۡلَمَ فَاُولٰٓٮِٕكَ تَحَرَّوۡا رَشَدًا‏ (سورۃ الجن آیت 14)
اور یہ کہ ہم میں سے (بعض) فرماں بردار بھی ہیں اور ہم میں سے (بعض) ظالم بھی ہیں، پھر جو کوئی فرمانبردار ہوگیا تو ایسے ہی لوگوں نے بھلائی طلب کی
ماحصل:
  • اراد: دل میں کسی بات کا خیال آنا جانا۔
  • ہمّ: اس ارادے پر سوچ بچار کرنا۔
  • عزم: سوچ بچار کے بعد پختہ ارادہ بنا لینا۔
  • ابرم: عزم کی منصوبہ بندی کرنا۔
  • امّ: ادھر ادھر توجہ کیے بغیر سیدھا اپنی منزل کا قصد
  • تیمّم: کسی شرعی حکم کی تعمیل کا ارادہ
  • تحرّی: خوب تر راہ کا قصد کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اڑنا

کے لیے اصرّ، مرد اور لجّ کے الفاظ قرآن کریم میں آتے ہیں۔
1: اصرّ
صرّ
بمعنی باندھنا اور صرّۃ اس تھیلی کو کہتے ہیں جس میں نقدی رکھ کر باندھ دی جاتی ہے اور اصرّ بمعنی کسی گناہ یا بری بات پر سختی سے جم جاتا اور اس سے باز نہ آنا۔ (مف) زیادہ تر گناہ کے لیے یہ لفظ آتا ہے (م۔ ق) ارشاد باری ہے:
وَكَانُوۡا يُصِرُّوۡنَ عَلَى الۡحِنۡثِ الۡعَظِيۡمِ‌ (سورۃ الواقعہ آیت 46)
اور وہ گناہِ عظیم (یعنی کفر و شرک) پر اصرار کیا کرتے تھے
2: مرد
مرد
کے بنیادی معنی کسی چیز کا ایسی چیز سے خالی ہونا جس کا وہ سزاوار ہو ۔ امرد وہ درخت ہے جس کے پتے نہ ہوں اور نیز وہ نوجوان جس کی یا تو ابھی داڑھی نہ اتری ہو یا ویسے ہی بے ریش ہو۔ لونڈا، اور مارد جنوں یا انسانوں میں سے ایسے شیطان کو کہا جاتا ہے جو ہر قسم کی خیر سے عاری ہوں۔ پھر یہ لفظ کسی بُری بات پر اڑ کر خیر سے خالی رہنے کے لیے استعمال ہونے لگا۔ (مف) ارشاد باری ہے:
وَمِمَّنۡ حَوۡلَــكُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ‌ؕ وَمِنۡ اَهۡلِ الۡمَدِيۡنَةِ‌‌ ‌ؔۛمَرَدُوۡا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعۡلَمُهُمۡ‌ؕ نَحۡنُ نَـعۡلَمُهُمۡ‌ؕ سَنُعَذِّبُهُمۡ مَّرَّتَيۡنِ ثُمَّ يُرَدُّوۡنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيۡمٍ‌ۚ‏ (سورۃ التوبہ آیت 101)
اور تمہارے گردونواح کے بعض دیہاتی بھی منافق ہیں اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے ہم جانتے ہیں۔ ہم انکو دہرا عذاب دیں گے۔ پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
3: لج
ضد سے جھگڑنا۔ دشمنی میں مداومت کرنا (منجد) اور لجة بمعنی پانی کی گہرائی اور بحر لجّی بمعنی گہرا سمندر اور التجّ البحر بمعنی سمندر کا ہیجان یا طوفان میں آنا اور متلاطم ہونا (منجد) گویا لجّ کے معنی کسی برے کام میں دور دراز تک چلے جانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَلَوۡ رَحِمۡنٰهُمۡ وَكَشَفۡنَا مَا بِهِمۡ مِّنۡ ضُرٍّ لَّـلَجُّوۡا فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ‏ (سورۃ المؤمنون آیت 75)
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو تکلیفیں انکو پہنچ رہی ہیں وہ دور کر دیں تو یہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں اور بھٹکتے پھریں۔
ماحصل:
  • اصرّ: کسی برے کام پر اڑ جانا یا اڑے رہنا۔
  • مرد: جب اڑنا بطور عادت بن جائے۔ اور شدت اختیار کرنا۔
  • لجّ: اڑنا اور اڑنے کے فعل میں دور دراز تک چلے جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اڑانا – اڑنا

اُڑانا کے لیے اذری ( ذرو) اور نسف کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں اور اڑنا کے لیے طار اور استطار کے۔

1: اذری

ذرء بمعنی کام کا ناتمام ٹکڑا اور ذرات الرّیح بمعنی ہوا نے ٹکڑے ٹکڑے شدہ چیز کو اٹھایا اور دور لے گئی (م ل) اور اذری بمعنی ہوا کا ہلکی پھلکی چیزوں کو ہوا میں بکھیر کر اڑانا۔ ابن الفارس کے نزدیک ذرو سے مراد ایسی چیزوں کا ہوا میں اڑنا ہے جو بعد میں متفرق ہو کر نیچے گر پڑیں (م ل) ارشاد باری ہے:
وَاضۡرِبۡ لَهُمۡ مَّثَلَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا كَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ فَاَصۡبَحَ هَشِيۡمًا تَذۡرُوۡهُ الرِّيٰحُ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ مُّقۡتَدِرًا‏ (سورۃ الکہف آیت 45)
اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کر دو کہ وہ ایسی ہے جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا۔ تو اسکے ساتھ زمین کی پیدوار ملکر نکلی پھر وہ چورا چورار ہو گئ کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں۔ اور اللہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

2: نسف

نسف الْحَبَّ غلہ کو چھاج سے پھٹکنا اور منسف چھاج اور چھلنی وغیرہ جس سے غلہ صاف کیا جائے۔ اور نسف الريح بمعنی ہوا کا کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا (مف منجد) اور بمعنی پہاڑ وغیرہ کو کوٹنا اور اسے ہوا میں اڑا دینا (م ن) ارشاد باری ہے:
وَيَسۡــَٔلُوۡنَكَ عَنِ الۡجِبَالِ فَقُلۡ يَنۡسِفُهَا رَبِّىۡ نَسۡفًاۙ‏ (سورۃ طہ آیت 105)
اور آپ سے یہ لوگ پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں، سو فرما دیجئے: میرا رب انہیں ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا

ماحصل:

ذرو چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ہوا میں اُڑنے کے لیے اور (نسف) بڑی چیزوں کو پہلے ریزہ ریزہ بنانے پھر ہوا میں اڑا کر بکھیرنے کے لیے آتا ہے۔

3: طار اور استطار

الطائر ہر پر دار جانور کرتے ہیں جو فضا میں حرکت کرتا ہے اور طار یطیّر بمعنی پرندہ کا اڑنا اور طیر طائِر کی جمع ہے۔ قرآن میں ہے:
وَمَا مِنۡ دَآبَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ وَلَا طٰۤٮِٕرٍ يَّطِيۡرُ بِجَنَاحَيۡهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمۡثَالُـكُم مَا فَرَّطۡنَا فِىۡ الۡـكِتٰبِ مِنۡ شَىۡءٍ‌ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمۡ يُحۡشَرُوۡنَ‏ (سورۃ الانعام آیت 38)
اور زمین میں جو چلنے پھرنے والا حیوان یا اپنے پروں سے اڑنے والا پرندہ ہے انکی بھی تم لوگوں کی طرح جماعتیں ہیں۔ ہم نے کتاب یعنی لوح محفوظ میں کسی چیز کے لکھنے میں کوتاہی نہیں کی پھر سب اپنے پروردگار کی طرف جمع کئے جائیں گے۔
اور غبار مستطار بمعنی ہوا میں اڑ کر منتشر ہو جانے والا غبار (مف) یعنی استطار کے معنی کسی چیز کا ہوا یا فضا میں اڑ کر منتشر ہو جانا ہے۔ قرآن میں ہے:
يُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَيَخَافُوۡنَ يَوۡمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسۡتَطِيۡرًا‏ (سورۃ الدھر آیت 7)
(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اشارہ کرنا

کے لیے اشار، رمز، تغامز اور عرّض کے الفاظ قرآن کریم میں آتے ہیں۔

1: اشار

منہ کھولے بغیر ہاتھ کی حرکت سے کسی کو کوئی بات سمجھانا (ف ل 1747) قرآن میں ہے:
فَاَشَارَتۡ اِلَيۡهِ‌ؕ قَالُوۡا كَيۡفَ نُـكَلِّمُ مَنۡ كَانَ فِىۡ الۡمَهۡدِ صَبِيًّا‏ (سورۃ مریم آیت 29)
تو مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیسے بات کریں۔

2: رمز

ہونٹ سے اشارہ کرنے یا ہلکی سی آواز نکالنے کو کہتے ہیں (ف ل ۱۷۴) اور ہر وہ کام جور اشارہ کی طرح کا ہو وہ رمز ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ رَبِّ اجۡعَل لِّىۡۤ اٰيَةً‌ؕ قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمۡزًاؕ‌ وَاذۡكُرْ رَّبَّكَ كَثِيۡرًا وَّسَبِّحۡ بِالۡعَشِىِّ وَالۡاِبۡكَارِ (سورۃ آل عمران آیت 41)
زکریا نے کہا کہ پروردگار میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما دے فرمایا نشانی یہ ہے کہ تم لوگوں سے تین دن اشارے کے سوا بات نہ کر سکو گے تو ان دنوں میں اپنے پروردگار کی کثرت سے یاد اور صبح و شام اس کی تسبیح کرنا۔

3:تغامز

(غمز) یعنی پلکوں اور ابروؤں سے بات سمجھانا (ف ل 174) اور ابن الفارس کے بقول کسی جانور کو کوئی چیز چبھونا تاکہ چل پڑے (م ل - منجد) اور تغامز بمعنی کسی کی عیب ہوئی کرنے کے لیے ابرو سے اشارہ کرنا (مف) ارشاد باری ہے:
وَاِذَا مَرُّوۡا بِهِمۡ يَتَغَامَزُوۡنَ (سورۃ مطففین آیت 30)
اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو آپس میں آنکھوں سے اشارہ بازی کرتے تھے

4: عرض

عرض بمعنی پیش کرنا اور عرّض بمعنی اشارہ اور کنایہ میں بات کرنا اور امام راغب کے نزدیک تعریض کے معنی پہلو دار بات کرنا جو سچ اور جھوٹ اور ظاہر و باطن دونوں پر محمول ہو سکتی ہو (مف) ارشاد باری ہے۔
وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا عَرَّضۡتُمۡ بِهٖ مِنۡ خِطۡبَةِ النِّسَآءِ (‎سورۃ البقرۃ آیت 235)
اگر تم اشارے کنائے کی باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو ۔

ماحصل:

ہاتھ کی حرکت سے اشارہ کرنے کے لیے اشار، ہونٹوں کی حرکت ہے اشارہ کے لیے رمز ، آنکھوں، پلکوں یا ابروؤں سے اشارہ کرنے کے لیے غمز آتا ہے اور عرّض میں اشارہ کرنا مقصود نہیں بلکہ اشارہ کنایہ سے بات سمجھانا مقصود ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اطاعت (پیروی، تابعداری، فرمانبرداری) کرنا

کے لیے تبع، اقتدا (قدو) اسوة (اسو) أَطَاعَ ، استجَاب، اسلم، قنت اور ذعن کے الفاظ قرآن کریم میں آتے ہیں۔

1: تبع

کسی کے پیچھے لگنا یا اس کے نقش قدم پر چلنا (مف)، اور یہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ باطنی طور پر جیسے دین کی یا ہدایت کی یا کسی شخص کے عادات و اطوار کی پیروی کرنا۔ جیسے:
فَمَنۡ تَبِعَ هُدَاىَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 38)
جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی انکو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔
اور ظاہری طور پر کسی شخص کے پیچھے پیچھے چلنے کے لیے اتبع آتا ہے۔ جیسے:
فَاَتۡبَعَهُمۡ فِرۡعَوۡنُ بِجُنُوۡدِهٖ فَغَشِيَهُمۡ مِّنَ الۡيَمِّ مَا غَشِيَهُمۡؕ‏ (سورۃ طہ آیت 78)
پھر فرعون نے اپنے لشکروں کے ساتھ ان کا تعاقب کیا پس دریا (کی موجوں) نے انہیں ڈھانپ لیا جتنا بھی انہیں ڈھانپا

2: اقتدا

بمعنی کسی کی پیروی کرنا اور اس جیسا کام کرنا اور اقدی کے معنی نیکی اور دین کے راستہ میں کسی کی پیروی کرنا ہے (منجد) جیسا کہ مقتدی نماز کی حالت میں امام کی اقتداء کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
اُولٰٓٮِٕكَ الَّذِيۡنَ هَدَى اللّٰهُ‌ فَبِهُدٰٮهُمُ اقۡتَدِهۡ‌ؕ قُل لَّاۤ اَسۡــَٔلُكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا‌ؕ اِنۡ هُوَ اِلَّا ذِكۡرٰى لِلۡعٰلَمِيۡنَ (سورۃ الانعام آیت 90)
یہ وہ لوگ ہیں جنکو اللہ نے ہدایت دی تھی تو تم انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو۔ کہدو کہ میں تم سے اس کا کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ یہ تو دنیا جہان کے لوگوں کے لئے محض نصیحت ہے۔
اور اقتداء کا لفظ برے مفہوم میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ قدوۃ در اصل انسان کی اس حالت کو کہتے ہیں جب وہ کسی دوسرے کا متبع ہو (مف) اور قدوۃ، مقتدا، رہنما اور پیشوا کے معنی میں بھ آتا ہے (منجد) تو اگر مقتداء برا شخص یا بری چیز یا برا نمونہ ہو تو اقتداء بھی ایسی ہی ہو گی۔ جیسے قرآن میں ہے:
وَكَذٰلِكَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ فِىۡ قَرۡيَةٍ مِّنۡ نَّذِيۡرٍ اِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوۡهَاۤ اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰٓى اُمَّةٍ وَّاِنَّا عَلٰٓى اٰثٰرِهِمۡ مُّقۡتَدُوۡنَ‏ (سورۃ الزخرف آیت 23)
اور اسی طرح ہم نے کسی بستی میں آپ سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں بھیجا مگر وہاں کے وڈیروں اور خوشحال لوگوں نے کہا: بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ و مذہب پر پایا اور ہم یقیناً انہی کے نقوشِ قدم کی اقتداء کرنے والے ہیں

3: اسوۃ

اسوۃ اور قدوۃ دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں۔ اور نمونہ یا قابل تتبع حالت کے لیے آتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اسوۃ میں مواساة یعنی آپس میں ہمدردی اور غمگساری کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ گویا اسوۃ ایسا نمونہ ہے جس سے تسلی بھی ہو سکے اور اسی مرہم پٹی کرنے والے، طبیب اور صلح جو کو کہتے ہیں (مف، م ل، منجد) گویا اسوۃ کا لفظ قدوة سے زیادہ ابلغ ہے۔ ارشاد باری ہے:
لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡا اللّٰهَ وَالۡيَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيۡرًاؕ‏ (سورۃ الاحزاب آیت 21)
مسلمانو تمکو اللہ کے رسول کی پیروی کرنی بہتر ہے یعنی ہر اس شخص کو جسے اللہ سے ملنے اور روز قیامت کے آنے کی امید ہو اور وہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو۔

4: اطاع

طوع بمعنی دل کی خوشی اور رضا مندی (ضد کرہ بمعنی کراہت ، نفرت نا پسندیدگی) اور اطاع سے مراد ایسی فرمانبرداری ہے جو دل کی خوشی سے سر انجام دی جائے ۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ اسۡتَوٰىۤ اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِيَا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًاؕ قَالَتَاۤ اَتَيۡنَا طَآٮِٕعِيۡنَ‏ (سورۃ فصلت آیت 11)
پھر وہ سماوی کائنات کی طرف متوجہ ہوا تو وہ (سب) دھواں تھا، سو اس نے اُسے (یعنی آسمانی کرّوں سے) اور زمین سے فرمایا: خواہ باہم کشش و رغبت سے یا گریزی و ناگواری سے (ہمارے نظام کے تابع) آجاؤ، دونوں نے کہا: ہم خوشی سے حاضر ہیں

5: استجاب

بمعنی جواب دینا، بات ماننا فرمانبرداری کرنا، حکم مان لینا۔ اطاعت اور استجابت میں فرق یہ ہے کہ اطاعت صرف بڑے کی کی جاتی ہے جبکہ استجابت چھوٹا بھی بڑے کی کر سکتا ہے اگر اس کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو اس کا معنی اللہ کے بندے کی دعا کو قبول کر لینا ہے اور اگر اس کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس کا معنی بندے کا اللہ کا حکم مان لینا ہے (فق ل ۱۸۴) ارشاد باری ہے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اسۡتَجِيۡبُوۡا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيۡكُمۡ (سورۃ الانفال آیت 24)
مومنو! اللہ اور اسکے رسول کا حکم قبول کرو جبکہ رسول تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی جاوداں بخشتا ہے۔

6: أسلم

السلم بمعنی صحت و عافیت (م ل) اور بمعنی ظاہری اور باطنی آفات سے محفوظ ہونا (مف) اور اسلم بمعنی اطاعت اختیار کرنا اور خدا کے احکام اور اس کی رضا کے سامنے تسلیم خم کر دینا تاکہ اخروی عذاب سے امن اور عافیت حاصل ہو۔ (مف) ارشاد باری ہے:
اِذۡ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسۡلِمۡ‌ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 131)
جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا کہ میرے فرمانبردار ہو جاؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کا فرمانبردار ہو گیا۔

7: قنت

بمعنی تمام و کمال خاموشی سے نماز میں کھڑا ہونا اور اللہ تعالی کے آگے خشوع و خضوع کرنا (منجد) اور امام راغب کے نزدیک عبادت میں ہمہ تن مصروف ہونا اور غیر سے توجہ ہٹانا ہے (مف) گویا قنوت ایسی اطاعت ہے جو پورے خشوع و خضوع اور توجہ سے بجا لائی جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَمَنۡ يَّقۡنُتۡ مِنۡكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَتَعۡمَلۡ صَالِحًـا نُّؤۡتِهَـآ اَجۡرَهَا مَرَّتَيۡنِۙ وَاَعۡتَدۡنَا لَهَا رِزۡقًا كَرِيۡمًا‏ (سورۃ الاحزاب آیت 31)
اور جو تم میں سے اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور عمل نیک کرے گی۔ اسکو ہم دونا ثواب دیں گے اور اسکے لئے ہم نے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔

8: ذعن

بمعنی مطیع و منقاد ہونا اور اشاروں پر چلنا اور مذعان بمعنی آسانی سے فرمانبردار ہو جانے والا (منجد) اور ناقة مذعان سوار کی مطیع اور فرمانبردار اونٹی کو کہتے ہیں (مف) گویا ذعن میں اطاعت کے ساتھ عاجزی اور ذلت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَاِنۡ يَّكُنۡ لَّهُمُ الۡحَـقُّ يَاۡتُوۡۤا اِلَيۡهِ مُذۡعِنِيۡنَؕ‏ (‎سورۃ النور آیت 49)
اور اگر وہ حق والے ہوتے تو وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مطیع ہو کر تیزی سے چلے آتے
بعض مفسرین نے مذعنین کا ترجمہ مطیعین سارعین کیا ہے۔ یعنی اگر معاملہ ان کے حق میں جاتا ہو تو اسے قبول کرنے کو دوڑتے آتے ہیں (فق ل ۲۰۹)

ماحصل:

  • تبع: بمعنی کسی کے پیچھے چلنا، یہ اطاعت سے عام اور ابلغ ہے۔
  • اقتداء: بمعنی کسی کے پیچھے چلنا اور اس جیسا کام کرنا۔
  • اسوۃ: کسی مثالی کردار کی اتباع کرنا جذبہ ہمدردی کے ساتھ۔
  • اطاع: دل کی خوشی کے ساتھ کسی کا حکم بجا لانا۔
  • استجاب: حکم قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا، بات مان لینا اور یہ بڑے سے بھی ممکن ہے۔
  • اسلم: کسی کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا۔
  • قنت: عبادات میں ایسی اطاعت جس میں عاجزی اور تذلیل بھی ہو۔
  • ذعن: نکو بن کر یا اپنے مفاد کی خاطر اطاعت کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اعتدال

کے لیے قصد، وسط اور تقویم کے الفاظ قرآن میں آتے ہیں۔

1:قصد

قصد اور اقتصاد کے معنی افراط اور تفریط سے بچتے ہوئے درمیانی راہ کو اختیار کرنے کے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اقتصاد کا استعمال عموماً خرچ اخراجات سے متعلق ہے جبکہ قصد کا لفظ عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَاقۡصِدۡ فِىۡ مَشۡيِكَ وَاغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِكَ‌ؕ اِنَّ اَنۡكَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِيۡرِ (سورۃ لقمان آیت 19)
اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا اور بولتے وقت ذرا آواز نیچی رکھنا کیونکہ بہت اونچی آواز گدھوں کی سی ہے اور کچھ شک نہیں کہ سب سے بری آواز گدھوں کی ہوتی ہے۔ ‏
اور قصد السبیل سے مراد افراط و تفریط سے بچتے ہوئے درمیانی اور اعتدال کی راہ اختیار کرنا ہے اور یہی ایک راستہ سیدھا ہو سکتا ہے ۔ جبکہ باقی سب راستے افراط یا تفریط کی طرف مائل یا ٹیڑھے ہی ہوں گے۔ ارشاد باری ہے:
وَعَلَى اللّٰهِ قَصۡدُ السَّبِيۡلِ وَمِنۡهَا جَآٮِٕرٌ‌ؕ وَلَوۡ شَآءَ لَهَدٰٮكُمۡ اَجۡمَعِيۡنَ (سورۃ النحل آیت 9)
اور سیدھا رستہ تو اللہ تک جا پہنچتا ہے۔ اور بعض رستے ٹیڑھے ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے رستے پر چلا دیتا۔
2: وسط
ایک ہی چیز کا درمیان یا دو یا دو سے زیادہ چیزوں کی درمیانی چیز گویا کہ یہ لفظ قصد سے زیادہ ابلغ ہے اور وسط بمعنی ہر ایک معاملہ میں درمیانی اور اعتدال کی راہ اختیار کرنے والا ارشاد باری ہے:
وَكَذٰلِكَ جَعَلۡنٰكُمۡ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَيۡكُمۡ شَهِيۡدًا (سورۃ بقرۃ آیت 143)
اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر آخرالزماں ﷺ تم پر گواہ بنیں۔
3: تقویم
تقویم
کا تعلق ایک ہی چیز سے ہوتا ہے کہ اس میں افراط و تفریط کے جملہ پہلوؤں کو دور کر دیا جائے اور وہ متوازن ، متناسب اور معتدل بن جائے۔ اس میں کوئی جھول، ڈھلک اور ٹیڑھے پن نہ رہے (فق ل 174) قوم الشیء بمعنی کسی چیز کی تعیین و تعدیل کرنا اسی سے تقویم البلدان بنایا گیا کیونکہ اس میں شہروں کے طور و عرض کو بیان کیا جاتا ہے اور قوّم دراہ بمعنی ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنا (منجد) قرآن میں ہے:
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِىۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِيۡمٍ‏ (سورۃ التین آیت 4)
بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے

ماحصل:

  • قصد: کسی عمل میں افراط و تفریط سے بچ کر اعتدال کی راہ۔
  • وسط: یہ زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے بہت سی اشیاء کا درمیان بھی وسط ہے اور اعمال کے بھی اوساط ہیں۔ یہ لفظ سب پر حاوی ہے۔
  • تقویم: ایک ہی چیز میں ہر پہلو سے اعتدال کو ملحوظ رکھنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اعمال نامہ

اس کے لیے طائر، قطّ، کتاب اور صحف کے الفاظ قرآن کریم میں آتے ہیں۔

1: طائر

طائر بمعنی پرندہ (جمع طير ) اور تطیّر اور بمعنی پرندہ سے شگون لینا۔ یہ لفظ برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ پھر طائر کا لفظ بھی نحوست ، بد عملی اور بدشگونی کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ ارشاد باری ہے:
قَالُوۡا طآٮِٕرُكُمۡ مَّعَكُمۡؕ اَٮِٕنۡ ذُكِّرۡتُمۡؕ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ‏ (سورۃ یس آیت 19)
(پیغمبروں نے) کہا: تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے، کیا یہ نحوست ہے کہ تمہیں نصیحت کی گئی، بلکہ تم لوگ حد سے گزر جانے والے ہو
اور جب انسان کوئی عمل کر چکتا ہے تو اس پر اسے کوئی اختیار نہیں رہتا۔ گویا وہ اس کے ہاتھوں سے یوں اڑ گیا جیسے پرندہ اڑ جاتا ہے۔ اس پہلو سے انسان کے اعمال کو بھی طائر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَكُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰهُ طٰۤٮِٕرَهٗ فِىۡ عُنُقِهٖ‌ؕ وَنُخۡرِجُ لَهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلۡقٰٮهُ مَنۡشُوۡرًا‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت13)
اور ہم نے ہر انسان کے اعمال نامے کو بہ صورت کتاب اسکے گلے میں لٹکا دیا ہے۔ اور قیامت کے روز وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا۔

2: کتاب

کتب بمعنی لکھنا اور ہر قسم کی تحریر چھوٹی ہو یا بڑی، چٹھی ہو یا کوئی ضخیم کتاب سب پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور انسان کے اعمال بھی ساتھ ہی ساتھ کراما کاتبین تحریر کرتے جا رہے ہیں۔ لہذا اعمال نامہ کو اس لحاظ سے کتاب کہا گیا ہے۔ مندرجہ بالا آیت کا اگلا حصہ یوں ہے
وَنُخۡرِجُ لَهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلۡقٰٮهُ مَنۡشُوۡرًا‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت13)
اور قیامت کے روز وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا۔

3: قطّ

بمعنی حساب کا رجسٹر، حکم نامہ ، محاسبہ کی تحریر۔ احکام (منجد، مف) اعمال نامہ کو اس لحاظ سے قرآن میں قطّ کہا گیا ہے کہ یہی تحریر انسان کے محاسبہ کی بنیاد ہو گی۔ ارشاد باری ہے:
وَقَالُوۡا رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبۡلَ يَوۡمِ الۡحِسَابِ‏ (سورۃ ص آیت 16)
اور وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! روزِ حساب سے پہلے ہی ہمارا حصّہ ہمیں جلد دے دے

4: صحف

(واحد صحیفہ) صحیفہ معنی پھیلی ہوئی چیز اور ہر وہ چیز جس پر کچھ لکھا جاتا ہے (مف) صحیفہ بمعنی لکھا ہوا کاغذ، ورق اور صحافۃ معنی اخبار نویسی اور اصحف بمعنی صحیفوں یا لکھے ہوئے اوراق کو کتاب کی صورت میں جمع کرنا اور مصحف معنی کتاب مجلد کتاب ( جمع مصاحف) (منجد) اور اعمال نامہ کو اس پہلو سے صحیفہ کہا گیا ہے کہ یہ بڑے بڑے پھیلے ہوئے صفحات کی صورت میں ہو گا ۔ ارشاد باری ہے:
وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ (سورۃ التکویر آیت 10)
اور جب اَعمال نامے کھول دیئے جائیں گے

ماحصل:

اعمال کے نتیجہ پر اختیار نہ رہنے کی وجہ سے اعمال نامہ کو طائر، لکھے ہونے کی وجہ سے کتاب، محاسبہ کی بنیاد ہونے کی وجہ سے قطّ اور بڑے بڑے صفحات میں لکھا ہونے کی وجہ سے صحف کہا گیا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

افسوس

کے لیے ویل، لیت، اسفی اور آسی (اسی) کے الفاظ قرآن کریم میں آتے ہیں:

1: ویل

کلمہ وعید ہے جو اپنی اصل کے لحاظ سے بد دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور ویل (اسم) بمعنی شرو برائی کا نزول ہلاکت، بہت سخت مصیبت (منجد) اور توایل بمعنی ایک دوسرے کو بد دعا دینا (منجد) ویل کا لفظ برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر بولا جاتا ہے (م ا) اور جب انسان کسی مصیبت یا پریشانی میں گرفتار ہو تو اس کلمہ سے افسوس کا اظہار کرتا ہے ۔
اب اس کی مثالیں دیکھیے
مصیبت میں :
قَالُوۡا يٰوَيۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَاۘ (سورۃ یس آیت 51)
(روزِ محشر کی ہولناکیاں دیکھ کر) کہیں گے: ہائے ہماری کم بختی! ہمیں کس نے ہماری خواب گاہوں سے اٹھا دیا
وَيۡلٌ يَّوۡمَٮِٕذٍ لِّلۡمُكَذِّبِيۡنَ‏ (سورۃ مرسلت آیت 24)
اُس دن جھٹلانے والوں کے لئے بڑی تباہی ہے
پریشانی میں:
فَبَـعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا يَّبۡحَثُ فِىۡ الۡاَرۡضِ لِيُرِيَهٗ كَيۡفَ يُوَارِىۡ سَوۡاَةَ اَخِيۡهِ‌ؕ قَالَ یٰوَيۡلَتٰٓى اَعَجَزۡتُ اَنۡ اَكُوۡنَ مِثۡلَ هٰذَا الۡغُرَابِ فَاُوَارِىَ سَوۡاَةَ اَخِىۡ‌ۚ فَاَصۡبَحَ مِنَ النّٰدِمِيۡنَ‌‌‌ۛ (سورۃ المائدہ آیت 31)
پھر اﷲ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح چھپائے، (یہ دیکھ کر) اس نے کہا: ہائے افسوس! کیا میں اس کوّے کی مانند بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا، سو وہ پشیمان ہونے والوں میں سے ہوگیا

2: لیت

حرف تمنّی مشبہ بہ فعل ہے اور گزشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لیے آتا ہے (مف) بمعنی اے کاش کہ کاش کہ۔ افسوس اور ایسی آرزو کے لیے آتا ہے جس کا پورا ہونا ممکن نہ ہو۔ جیسے لیت الشباب عائدا کاش جوانی لوٹ آتی۔ ارشاد باری ہے:
وَيَقُوۡلُ الۡـكٰفِرُ يٰلَيۡتَنِىۡ كُنۡتُ تُرٰبًا (سورۃ النبا آیت 40)
اور کافر کہے گا کہ اے کاش میں مٹی ہوتا۔

3: اسفی

افسوس اور غم کے ملے جلے جذبات کو کہتے ہیں۔ غصہ جب کسی کمزور شخص پر آئے تو وہ غیظ و غضب کی شکل اختیار کرتا ہے اور جب اپنے سے طاقتور پر غصہ آئے تو وہ منقبض ہو کر حزن اور افسوس بن جاتا ہے (مف فل ۱۷۰) قرآن میں ہے:
وَتَوَلّٰى عَنۡهُمۡ وَقَالَ يٰۤاَسَفٰى عَلٰى يُوۡسُفَ وَابۡيَـضَّتۡ عَيۡنٰهُ مِنَ الۡحُـزۡنِ فَهُوَ كَظِيۡمٌ‏ (سورۃ یوسف آیت 84)
اور انکے پاس سے چلے گئے اور کہنے لگے کہ ہائے افسوس یوسف پر ہائے افسوس اور رنج و الم میں انکی آنکھیں سفید ہو گئیں اور ان کا دل غم سے بھر رہا تھا۔

4: آسی

جو موقعہ غفلت یا کوتاہی کی وجہ سے ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس اور غم کا اظہار کرنا (ف ل 170) ارشاد باری ہے:
لِّـكَيۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰى مَا فَاتَكُمۡ وَلَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰٮكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍۙ‏ (سورۃ الحدید آیت 23)
تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اِتراؤ جو اس نے تمہیں عطا کی، اور اللہ کسی تکبّر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

ماحصل:

  • ویل کا لفظ اظہار افسوس کا کلمہ ہے جو کسی پریشانی اور مصیبت میں انسان کے منہ سے نکل جاتا ہے۔
  • لیت، حرف تمنی ہے اور گذشتہ کوتاہی پر اظہار افسوس کے لیے آتا ہے۔
  • اسف: ایسے افسوس اور غم کو کہتے ہیں جہاں انسان کا بس نہ چل سکتا ہو۔
  • آسی: کوئی اچھا موقعہ اپنی کوتاہی سے کھو دینا، پھر اس پر افسوس کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اقتدار بخشا

کے لیے مکّن اور استخلف کے الفاظ آتے ہیں۔

1: مكن:

بمعنی قدرت دینا، اختیار دیا ، قادر بنانا (منجد) جگہ اور منزلت پانا۔ اپنے پاؤں پر قائم ہونا اور کسی چیز پر قادر ہونا (م ا) یعنی کسی کو اقتدار بخشنا اور حکومت عطا کرنا کے ہیں ۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِيۡنَ اِنۡ مَّكَّنّٰهُمۡ فِىۡ الۡاَرۡضِ اَقَامُوۡا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَنَهَوۡا عَنِ الۡمُنۡكَرِ‌ؕ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الۡاُمُوۡرِ‏ (سورۃ الحج آیت 41)
(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے

2: استخلف

خلف بمعنی پیچھے آنا یا کسی کا جانشین ہونا اور استخلف بمعنی کسی کو جانشین یا قائم مقام بنانا (منجد - م - د) ارشاد باری ہے:
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِىۡ الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ (سورۃ النور آیت 55)
اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل امت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے
گویا استخلاف کا لفظ اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ موجودہ اقتدار برے آدمیوں کے ہاتھ میں ہے اور جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور اچھے کام کریں اللہ تعالی یہ موجودہ حکومت بدل کر اقتدار ان کے حوالے کر دے گا۔

ماحصل :

مكّن کا لفظ اقتدار و اختیار اور حکومت دینے کے لیے عام ہے جبکہ استخلف سے مراد صرف ایسی حکومت یا کسی کا جانشین بنانا ہے جو احکام شرعیہ کو رائج کریں اور فروغ بخشیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اقرار کرنا

کے لیے اقرر، اعترف (عرف) اور شھد کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

1: اقرر

اس کا مادہ قرر ہے بمعنی کسی جگہ جم کر ٹھہرنا، قرار پڑنا اور اقرر کے معنی کسی بات پر ثابت و قائم ہو جانا (م ا) اور اقرار عموماً کسی معاملہ یا وعدہ سے متعلق ہوتا ہے جو زمانہ مستقبل سے تعلق رکھتا ہے یعنی کسی وعدہ پر ثابت قدم اور قائم رہنا۔ ارشاد باری ہے،
قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَاَخَذۡتُمۡ عَلٰى ذٰلِكُمۡ اِصۡرِىۡ‌ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا‌ؕ قَالَ فَاشۡهَدُوۡا وَاَنَا مَعَكُمۡ مِّنَ الشّٰهِدِيۡنَ‏ (سورۃ آل عمران آیت 81)
اور عہد لینے کے بعد پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا انہوں نے کہا ہاں ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا کہ تم اس عہدوپیمان کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔

2: اعترف

عرف کے معنی کسی چیز کو پہچان لینا اور اعترف بمعنی اپنے جرم کا اقرار کر لینا اور ذلیل و خوار ہونا (م ا) گویا مجرم جو اپنے جرم سے بہر حال پہلے ہی واقف اور شناسا ہوتا ہے ۔ جب خود اس کا اقرار کر لے تو یہ اعتراف کہلاتا ہے اور اس جرم کا تعلق زمانہ گذشتہ سے ہوتا ہے جس کا اس نے اقرار کیا۔
ارشاد باری ہے:
فَاعۡتَرَفُوۡا بِذَنۡۢبِهِمۡ‌ۚ فَسُحۡقًا لِّاَصۡحٰبِ السَّعِيۡرِ‏ (سورۃ الملک آیت 11)
پس وہ اپنے گناہ کا اِعتراف کر لیں گے، سو دوزخ والوں کے لئے (رحمتِ اِلٰہی سے) دُوری (مقرر) ہے

3: شهد

بمعنی گواہی شہادت۔ اور یہ شہادت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک عینی شہادت دوسرے قلبی شہادت یعنی ایسی حقیقت جس کا انسان کو کلی طور پر یقین ہوا اور اس کا قاضی کے سامنے بیان دینا جیسے کلمہ شہادت جو ہر مسلمان گواہی دیتا ہے حالانکہ انہوں نے اللہ کو دیکھا نہیں۔ اور صحابہ کے علاوہ دوسرے مسلمانوں نے رسول اللہ کو بھی نہیں دیکھا۔ پھر جب یہی قلبی شہادت اپنی ذات سے متعلق ہو تو اس کا معنی اقرار کرنا ہو گا ۔ قرآن میں ہے:
قَالُوۡا شَهِدۡنَا عَلٰٓى اَنۡفُسِنَا‌ وَغَرَّتۡهُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا وَشَهِدُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ اَنَّهُمۡ كَانُوۡا كٰفِرِيۡنَ‏ (سورۃ الانعام آیت 130)
وہ کہیں گے کہ پروردگار ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے۔ اور ان لوگوں کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔ اور اب خود انہوں نے اپنے اوپر گواہی دی کہ کفر کرتے تھے۔

ماحصل

  • اقرار: کسی عہد و پیمان پر قائم ہونا اور اس کا تعلق آئندہ سے ہوتا ہے۔
  • اعتراف: اپنے جرم کا اقرار کرنا جو زمانہ ماضی میں ہو چکا ہوتا ہے۔
  • شہد: قلبی شہادت یعنی ایسی بات کا اقرار جس کا تعلق اپنی ذات سے ہو ۔
اکڑنا کے لیے دیکھیے --- اترانا۔
اکسانا کے لیے دیکھیے --- اُبھارنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اکیلا

کے لیے احد، وحید، فرد اور فرادی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: احد

بمعنی لاثانی۔ بے نظیر (منجد) اس لحاظ سے اس لفظ کا طلاق صرف ذات باری تعالی ہوتا ہے۔غیر باری تعالیٰ کے لیے واحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے (مف ۔ م ر) لیکن دو موقعوں پر احد کا لفظ واحد کا مترادف ہو کر آتا ہے۔ (1) اسمائے عدد اور ان کی ترکیب میں جیسے احد عشر، احدهم ،احد منكم، احدكم، يوم الاحد (اتوار) وغیرہ (۲) نفی کی صورت میں صرف ذوی العقول کے لیے آتا ہے۔ جیسے لیس في الدار احد (گھر میں کوئی بھی نہیں ہے) جیسے کہ قرآن میں ہے:
فَمَا مِنۡكُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡهُ حَاجِزِيۡنَ‏ (سورۃ الحاقۃ آیت 47)
پھر تم میں سے کوئی بھی (ہمیں) اِس سے روکنے والا نہ ہوتا
اور واحد کا لفظ عام ہے۔ اور اللہ تعالی اور ماسوا سب کے لیے یکساں مستعمل ہے اور اللہ تعالی کا ایک نام ہے جس کے معنی ایک کے ہیں۔ جیسے
قُلۡ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‌ (سورۃ الاخلاص آیت 1)
(اے نبئ مکرّم!) آپ فرما دیجئے: وہ ﷲ ہے جو یکتا ہے۔
کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یکتا، بے نظیر اور لا ثانی ہے۔ اور ان معنوں میں یہ لفظ ذات باری تعالی سے مختص ہے۔

2: وحید

احد کے مقابلہ میں جو چیز خلقت میں سے اکیلی اور یکتا ہو اور اس کی مثل نہ ہو اس کے لیے واحد اور وحید دونوں الفاظ مستعمل ہیں۔ جیسے الشمسُ وَاحِدَة (سورج ایک ہی ہے) ۔ یا فلان واحد عصرہ (فلاں شخص یکتائے روزگار ہے) اور لفظ وحید انہیں معنوں میں آتا ہے۔
قرآن میں ہے :
ذَرۡنِىۡ وَمَنۡ خَلَقۡتُ وَحِيۡدًاۙ‏ (سورۃ المدثر آیت 11)
آپ مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا (اِنتقام لینے کے لئے) چھوڑ دیں
یہ آیت ولید بن مغیرہ سے متعلق ہے جو اس وقت اولاد اور جاہ و حشم میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔

3: فرد

بمعنی اکیلا - طاق - ایک تلوے کی جوتی۔ کہا جاتا ہے ھذا شیء فرد (یہ چیز منفرد ہے) (منجد) فرد ایسی چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ دوسری نہ ملائی گئی ہو۔ یہ لفظ وتر (طاق ، جفت کی ضد) سے عام ہے اور واحد سے خاص (مف) اس کی جمع افراد ہے جس کے معنی ہیں سب الگ الگ۔
ارشاد باری ہے:
وَزَكَرِيَّاۤ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرۡنِىۡ فَرۡدًا وَّاَنۡتَ خَيۡرُ الۡوٰرِثِيۡنَ‌ (سورۃ الانبیاء آیت 89)
اور زکریا (علیہ السلام کو بھی یاد کریں) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: اے میرے رب! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر ہے

4: فرادی

الفردۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں، تنہا جانے والا۔ کہا جاتا ہے جاءوا فرادی وہ سب اکیلے اکیلے آئے۔ (منجد) چنانچہ قرآن میں ہے :
وَلَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقۡنٰكُمۡ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكۡتُمۡ مَّا خَوَّلۡنٰكُمۡ وَرَآءَ ظُهُوۡرِكُمۡ (سورۃ الانعام آیت 94)
اور جیسا ہم نے تم لوگوں کو پہلی بار پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے اکیلے تم ہمارے پاس آ گئے۔ اور جو مال و متاع ہم نے تمہیں عطا فرمایا تھا وہ سب اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے

ماحصل:

  • احد: لاثانی بے مثل ان معنوں میں اللہ تعالی کے لیے یا ایسی مخلوق کے لیے جس کی مثال نہ ہو۔
  • وحید: لاثانی بے مثل ان معنوں میں مخلوقات کے لیے اور یہ احد سے عام ہے۔
  • فرد: اکیلا فرد واحد منفرد کے لیے جبکہ اس جیسے دوسرے موجود ہوں۔
  • فرادی: ایک ایک کر کے جانے والے کو کہتے ہیں۔ نیز دیکھیے (ضمیمہ اسم عدد)
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اکھاڑنا - اکھڑنا

کے لیے اجتثّ (جثّ) اور انقعر (قعر) کے الفاظ آتے ہیں۔

1: اجتثّ:

جثّ بمعنی جڑ سے اکھاڑنا۔ بیخ کنی کرنا اور مجثّہ اس کھرپی کو کہتے ہیں جس سے گھاس وغیرہ کریدی جاتی ہے (منجد) اور جثيثة اس کھجور کے پودے کو کہتے ہیں جو اکھاڑ کر دوسری جگہ لگایا گیا ہو۔ (مف) اور اجتثّ بھی انہیں معنوں میں مستعمل ہے۔ جثّ کا لفظ گھاس پھوس اور چھوٹے پودوں کی بیخ کنی کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيۡثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيۡثَةٍ ۨاجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَهَا مِنۡ قَرَارٍ‏ (سورۃ ابراہیم آیت 26)
اور ناپاک بات یعنی غلط عقیدے کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے کہ وہ زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے اسکو ذرا بھی قرار و ثبات نہیں۔
2: انقعر
قعر
کا معنی کسی چیز کی گہرائی اور پیندا ہے اور اقعر البئر کے کنویں کو گہرا کھودنا اور اقعر الشجر کے معنی کسی درخت کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہے۔ ابن الفارس کے مطابق کسی ایسی شے کی جڑیں اکھاڑنا جو زمین میں نیچے تک چلی گئی ہوں (م ل) اور صاحب منتہی الارب اس کے معنی میں درخت کو جڑ سے اکھاڑنا کے بعد پھر اسے زمین پر پھینک دینا کا اضافہ بتلاتے ہیں (م ۱) گویا اقعر کا لفظ ایسے بڑے بڑے درختوں کی بیخ کنی کے لیے استعمال ہوتا ہے جن کی جڑیں زمین میں دور تک گہرائی میں چلی گئی ہوں اور انقعر جب اس فعل کا ورود اس چیز پر ہو۔ ارشاد باری ہے:
تَنۡزِعُ النَّاسَۙ كَاَنَّهُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ مُّنۡقَعِرٍ‏ (سورۃ القمر آیت 20)
جو لوگوں کو (اس طرح) اکھاڑ پھینکتی تھی گویا وہ اکھڑے ہوئے کھجور کے درختوں کے تنے ہیں

ماحصل:

جثّ چھوٹے پودوں اور گھاس پھوس کی بیخ کنی کے لیے اور انقعر بڑے بڑے درختوں، جن کی جڑیں کافی گہرائی تک ہوں کی بیخ کنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اکٹھا کرنا ہونا

کے لے جمَعَ، اجْتَمَعَ ، حَشَرَ، ادّخَرَ، خَرنَ اور وسق،، اتّسق، کفت، لَمّ، حَصّل اور مثابۃ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: جمع

جمع کا لفظ ایک ہی چیز کے مختلف اجزاء کو، یا مختلف چیزوں کو اکٹھا کرنے کے لیے آتا ہے۔ یہ چیزیں خواه جاندار ہوں یا بے جان ۔ مثلاً :
جاندار اشیاء کے لیے :
الَّذِيۡنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَـكُمۡ فَاخۡشَوۡهُمۡ فَزَادَهُمۡ اِیۡمَانًا (سورۃ آل عمران آیت 173)
جب ان سے لوگوں نے آ کر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے مقابلے کے لئے لشکر کثیر جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو۔ تو ان کا ایمان اور زیادہ ہو گیا۔
بے جان چیزوں کے لیے:
اۨلَّذِىۡ جَمَعَ مَالاً وَّعَدَّدَهٗۙ‏ (سورۃ الھمزۃ آیت 2)
(خرابی و تباہی ہے اس شخص کے لئے) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھتا ہے
پھر جمع کا لفظ جس طرح ظاہری چیزوں کو اکٹھا کرنے کے لیے آتا ہے معنوی طور پر بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً
فَتَوَلّٰى فِرۡعَوۡنُ فَجَمَعَ كَيۡدَهٗ ثُمَّ اَتٰى‏ (سورۃ طہ آیت 60)
پھر فرعون (مجلس سے) واپس مڑ گیا سو اس نے اپنے مکر و فریب (کی تدبیروں) کو اکٹھا کیا پھر (مقررہ وقت پر) آگیا

2: اجتمع

کا لفظ صرف ذوی العقول کے اکٹھا ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ خواہ وہ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہوں یا مختلف ہوں مثلاً
قُل لَّٮِٕنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَالۡجِنُّ عَلٰٓى اَنۡ يَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا يَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِهٖ وَلَوۡ كَانَ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٍ ظَهِيۡرًا‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 88)
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پر مجتمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔

3: حشر

حشر کا لفظ صرف جانداروں کے لیے آتا ہے یعنی لوگوں کا ان کے ٹھکانوں سے کسی ایک مقام کی طرف لے جانا ( مف ) اور ابن الفارس بھی اس معنی کی تائید کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں المحشر الجمع مع سوق (م ل) قرآن میں ہے:
فَحَشَرَ فَنَادٰى فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الۡاَعۡلٰى(سورۃ النازعات آیت 23، 24)
پھر اس نے (لوگوں کو) جمع کیا اور پکارنے لگا پھر اس نے کہا: میں تمہارا سب سے بلند و بالا رب ہوں
پھر یہ لفظ کبھی صرف بعث یا انبعاث کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے (م ل) یعنی مردہ کو جلا اٹھانا یا کسی خاص مقصد کے لیے لے جانا۔ بعث کے معنوں میں درج ذیل مثال دیکھئے :
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِىۡۤ اَعۡمٰى وَقَدۡ كُنۡتُ بَصِيۡرًا‏ (سورۃ طہ آیت 125)
وہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے (آج) اندھا کیوں اٹھایا حالانکہ میں (دنیا میں) بینا تھا
اور کبھی اس لفظ کا استعمال میں تجمّع، سوق اور بعث سب معنی پائے جاتے ہیں۔ جیسے:
وَيَوۡمَ نُسَيِّرُ الۡجِبَالَ و تَرَى الۡاَرۡضَ بَارِزَةً وَّحَشَرۡنٰهُمۡ فَلَمۡ نُغَادِرۡ مِنۡهُمۡ اَحَدًا‌ (سورۃ الکہف آیت 47)
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف میدان دیکھو گے اور ان لوگوں کو ہم جمع کر لیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

4: ادّخر

اس کا مادہ ذخر ہے جس کے معنی مستقبل کی ضرورت کے لیے کوئی چیز یعنی از قبیل اجناس خوردنی سٹاک کر لینا ۔ ذخیرہ کرنا (مف) اور یہ ذخیرہ انسانوں کے علاوہ دوسرے بھی کئی جاندار کرتے ہیں۔ ابن فارس اس کے معنی میں دو بنیادی باتیں لکھتے ہیں اکٹھا کرنا اور اسے محفوظ کرنا (م ل) اور ادخر بھی اسی معنی میں آتا ہے اور جمع شدہ چیز کو ذخر اور ذخیرہ کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
وَ اُنَبِّئُكُمۡ بِمَا تَاۡكُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَۙ فِىۡ بُيُوۡتِكُمۡ (سورۃ آل عمران آیت 49)
اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو سب تم کو بتا دیتا ہوں

5: خزن

ذخیرہ کا لفظ عموماً اجناس خوردنی کو جمع کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن خَزَنَ کا لفظ اس سے عام ہے۔ یہ اکثر مال و دولت کے جمع کرنے کے لیے آتا ہے جیسے خَزَنَتُ الدَّرَاهِم لیکن اس میں بنیادی مفہوم اکٹھا کرنے سے زیادہ حفاظت کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے، خرنت السّرّ (میں نے بھید کو محفوظ رکھا) (م ل) اور جو شخص اس جمع شدہ چیز یا مال کا محافظ ہو اسے خازن کہتے ہیں اور اس کی جمع خزنۃ آتی ہے۔ قرآن میں ہے:
تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الۡغَيۡظِ‌ؕ كُلَّمَاۤ اُلۡقِىَ فِيۡهَا فَوۡجٌ سَاَلَهُمۡ خَزَنَـتُهَاۤ اَلَمۡ يَاۡتِكُمۡ نَذِيۡرٌ‏ (سورۃ الملک آیت 8)
گویا (ابھی) شدتِ غضب سے پھٹ کر پارہ پارہ ہو جائے گی، جب اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا تو اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے: کیا تمہارے پاس کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا تھا
اور جہاں کوئی چیز جمع کی جائے اس جگہ کو خزانہ اور خزینۃ کہتے ہیں اور اس کی جمع خزائن ہے۔ آیۃ مندرجہ میں جمع شدہ چیز گنہگار لوگ، دوزخ خزانہ اور داروغہ یا اس خزانہ کا حافظ یعنی خازن ہیں۔

6: وسق/ اتسق

اس کے معنی چیزوں کو جمع کرنا اور اٹھانا (منجد، م ل ) ہے اور اوسق بمعنی جانور پر بوجھ لادنا اور وسقت الشیء کسی چیز کے متفرق اجزاء کو جمع کرنے کے ہیں اور اتسق کے معنی یہ ہیں کہ اس چیز کے سب اجزاء مجتمع ہو گئے اور وہ مکمل ہو گئی۔ (مف) قرآن میں ہے:
وَالَّيۡلِ وَمَا وَسَقَۙ‏ وَالۡقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَۙ‏ (سورۃ الانشقاق آیت 17، 18)
اور رات کی اور ان چیزوں کی جنہیں وہ (اپنے دامن میں) سمیٹ لیتی ہے اور چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے

7: کفت

بمعنی کسی چیز کو جمع کر کے اسے اپنے قبضہ میں لے لینا (مف) سنبھالنا، سمیٹ لینا اور کفیت بمعنی توشه دان جس میں خوراک اور سامان خوراک کو سنبھال رکھتے ہیں اور اللہم اکفہ - یا اللہ اسے سنبھال لے یا مار دے (منجد) ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ كِفَاتًاۙ‏ اَحۡيَآءً وَّاَمۡوَاتًاۙ‏ (سورۃ المرسلت آیت 25، 26)
کیا ہم نے زمین کو سمیٹ لینے والی نہیں بنایا (جو سمیٹتی ہے) زندوں کو (بھی) اور مُردوں کو (بھی)

8: لمّ

بمعنی کسی چیز کو جمع کرنا اور اس کو سنوارنا یا اس کی اصلاح کرنا (مف) قرآن میں ہے :
وَتَاۡكُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَكۡلًا لَّـمًّاۙ‏ (سورۃ الفجر آیت 19)
اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)

9: حصّل

التحصیل بمعنی چھلکے سے گودہ اور مغز کو نکالنا (مف) گویا حصل کے معنی میں دو باتیں پائی جاتی ہیں (1) نکالنا (۲) جمع کرنا۔ قرآن میں ہے:
وَحُصِّلَ مَا فِىۡ الصُّدُوۡرِۙ‏ (سورۃ العادیات آیت 10)
اور (راز) ظاہر کر دیئے جائیں گے جو سینوں میں ہیں
تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جو بھید سینوں میں ہوں گے وہ نکال کر اس طرح جمع کر دئیے جائیں گے جس طرح کہ چھلکے سے مغز الگ کر لیا جاتا ہے (مف)

10: مثابۃ

ثوب کے اصل معنی کسی چیز کا اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ آنا ہے۔ کہتے ہیں ثاب فلان الی دارہ۔ یعنی فلاں شخص اپنے کھر کی طرف لوٹ آیا اور مثابۃ اس جگہ کو کہتے ہیں جو کنویں کے منہ پر پانی پلانے کے لیے بنائی جاتی ہے (مف) چونکہ لوگ پانی پینے اور لے جانے کے لیے ایسی جگہ پر بار بار لوٹ کر آتےہیں اور جمع ہوتے تھے۔ لہذا اسے مثابۃ کہا جاتا ہے۔ اسی نسبت سے اللہ تعالی نے بیت اللہ شریف کو مثابۃ کہا کہ یہاں لوگ آ کر بار بار اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں اور جمع ہوتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَاِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَيۡتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمۡنًاؕ (سورۃ البقرۃ آیت 125)
اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا

ماحصل:

  • جمع کا لفظ عام ہے۔ ہر قسم کی چیزوں کے لیے اور ظاہری اور معنوی سب صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔
  • اجتمع: صرف جانداروں کو اکٹھا کرنے کے لیے۔
  • حشر: جانداروں کے لیے جو اپنے اپنے ٹھکانوں سے لیجا کر اکٹھا کرنے کے لیے۔
  • ذخر: مستقبل کے لیے ضرورت کی چیزوں کو جمع کرنے کے لیے۔
  • خزن: جمع شدہ چیزوں کی حفاظت کرنے کے لیے۔
  • وسق: ایک ہی چیز سے متعلقہ اجزاء کو اکٹھا کرنے کے لیے۔
  • کفت: بمعنی جمع کرنا اور قبضہ میں لے لینا، سمیٹ لینا۔
  • لمّ: جمع کرنا اور اس کی اصلاح کرنا۔
  • حصّل: نکالنا اور جمع کرنا۔
  • مثابۃ: میں جمع ہونے کا معنی کنایۃ پایا جاتا ہے۔ اصل معنی بار بار آتے رہنا کے ہیں۔
 

حیدرعلی صدّیقی

وفقہ اللہ
رکن

ابلنا – جوش مارنا

اس کے لیے غلی، نضخ، اور فار (فور) کے الفاظ آتے ہیں۔
1: غلی
غلا
کے بنیادی معنی اپنی حد سے تجاوز کرنا اور اوپر اٹھنا ہے۔ اس سے غلا القدر (ہانڈی کا جوش مارنا) اور غلا السّعر (نرخوں کا بلند ہو جانا) ہے (م ل) ارشاد باری ہے:
كَالۡمُهۡلِۚ يَغۡلِىۡ فِىۡ الۡبُطُوۡنِۙ‏ كَغَلۡىِ الۡحَمِيۡمِ‏ (سورۃ الدخان آیت 45، 46)
پگھلے ہوئے تانبے کی طرح وہ پیٹوں میں کَھولے گا۔ کھولتے ہوئے پانی کے جوش کی مانند۔
2: نضخ
پانی کا چشمہ سے زور سے پھوٹنا (منجد) مگر نضخ میں جوش مارنے کی وجہ کثرت آب اور دباؤ ہوتی ہے نہ کہ حرارت اور نضاخ موسلادھار بارش کو بھی کہتے ہیں (منجد) اور عین نضاخۃ وہ چشمہ ہے جو کثرت آب کی وجہ سے جوش مار رہا ہو۔ (م ل) ارشاد باری ہے:
فِيۡهِمَا عَيۡنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ‌ (سورۃ الرحمن آیت 66)
اُن دونوں میں (بھی) دو چشمے ہیں جو خوب چھلک رہے ہوں گے
3: فار
فار
کا لفظ ہانڈی کے جوش مارنے، چشمہ سے پانی ابلنے کے لیے اور آگ کے جوش مارنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مگر یہ لفظ اس صورت میں استعمال ہو گا جبکہ ابال جلد جلد اٹھ رہا ہو کیونکہ الفور کے معنی بہت جلدی کے ہیں۔ کہا جاتا ہے رجع من فورہ وہ بلا توقف بہت جلد جلد واپس ہوا۔ (منجد) اور لفظ فوّارہ بھی اسی سے مشتق ہے۔ جس میں پانی کا تسلسل قائم رہتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَفَارَ التَّنُّوۡرُ (سورۃ ھود آيت 40)
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا۔
ماحصل:
  • غلی: گرمی کی وجہ سے کسی مائع چیز کا جوش مارنا اور اپنی اصل سطح سے بلند ہونا۔
  • نضخ: کثرت آب اور دباؤ کی وجہ سے پانی کا جوش مارنا
  • فار: کسی چیز میں شدت اور جلدی کی وجہ سے اس کے ابال میں تسلسل قائم رہنا۔

ابلنا – جوش مارنا

اس کے لیے غلی، نضخ، اور فار (فور) کے الفاظ آتے ہیں۔
1: غلی
غلا
کے بنیادی معنی اپنی حد سے تجاوز کرنا اور اوپر اٹھنا ہے۔ اس سے غلا القدر (ہانڈی کا جوش مارنا) اور غلا السّعر (نرخوں کا بلند ہو جانا) ہے (م ل) ارشاد باری ہے:
كَالۡمُهۡلِۚ يَغۡلِىۡ فِىۡ الۡبُطُوۡنِۙ‏ كَغَلۡىِ الۡحَمِيۡمِ‏ (سورۃ الدخان آیت 45، 46)
پگھلے ہوئے تانبے کی طرح وہ پیٹوں میں کَھولے گا۔ کھولتے ہوئے پانی کے جوش کی مانند۔
2: نضخ
پانی کا چشمہ سے زور سے پھوٹنا (منجد) مگر نضخ میں جوش مارنے کی وجہ کثرت آب اور دباؤ ہوتی ہے نہ کہ حرارت اور نضاخ موسلادھار بارش کو بھی کہتے ہیں (منجد) اور عین نضاخۃ وہ چشمہ ہے جو کثرت آب کی وجہ سے جوش مار رہا ہو۔ (م ل) ارشاد باری ہے:
فِيۡهِمَا عَيۡنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ‌ (سورۃ الرحمن آیت 66)
اُن دونوں میں (بھی) دو چشمے ہیں جو خوب چھلک رہے ہوں گے
3: فار
فار
کا لفظ ہانڈی کے جوش مارنے، چشمہ سے پانی ابلنے کے لیے اور آگ کے جوش مارنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مگر یہ لفظ اس صورت میں استعمال ہو گا جبکہ ابال جلد جلد اٹھ رہا ہو کیونکہ الفور کے معنی بہت جلدی کے ہیں۔ کہا جاتا ہے رجع من فورہ وہ بلا توقف بہت جلد جلد واپس ہوا۔ (منجد) اور لفظ فوّارہ بھی اسی سے مشتق ہے۔ جس میں پانی کا تسلسل قائم رہتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَفَارَ التَّنُّوۡرُ (سورۃ ھود آيت 40)
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا۔
ماحصل:
  • غلی: گرمی کی وجہ سے کسی مائع چیز کا جوش مارنا اور اپنی اصل سطح سے بلند ہونا۔
  • نضخ: کثرت آب اور دباؤ کی وجہ سے پانی کا جوش مارنا
  • فار: کسی چیز میں شدت اور جلدی کی وجہ سے اس کے ابال میں تسلسل قائم رہنا۔
ماشاءاللہ محترمہ بہت خوب لکھا ہے۔ اللھم زد فزد۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اگر

کے لیے ان، امّا اور لو کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: ان

حرف شرط ہے۔ مستقبل کے لیے آتا ہے۔ اس کا پہلا جملہ شرطیہ ہمیشہ فعل ہوتا ہے اور دوسرے جملے (جزا) پر فعل داخل ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
اِنۡ تُعَذِّبۡهُمۡ فَاِنَّهُمۡ عِبَادُكَ‌ۚ وَاِنۡ تَغۡفِرۡ لَهُمۡ فَاِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ‏ (سورۃ المائدۃ آیت 118)
اگر تو انکو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں۔ اور اگر انہیں بخش دے تو تیری مہربانی اسلئے کہ تو ہی غالب ہے حکمت والا ہے۔

2: امّا

(ان – ما) جب حرف شرط کے طور پر آتا ہے تو اس میں ان ہی معنی دیتا ہے۔ ما حرف زیادت اور صرف تحسین کلام کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
اِمَّا يَـبۡلُغَنَّ عِنۡدَكَ الۡكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوۡ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡهَرۡهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوۡلاً كَرِيۡمًا‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 23)
اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انکو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔
فَاِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًاۙ فَقُوۡلِىۡۤ اِنِّىۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا فَلَنۡ اُكَلِّمَ الۡيَوۡمَ اِنۡسِيًّا‌ (سورۃ مریم آیت 26)
اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے اللہ کے لئے روزے کی منت مانی تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز گلام نہیں کروں گی۔

3: لو

حرف شرط مگر اس جزا کا جملہ ہمیشہ شرط سے مقید ہوتا ہے اور اس کی جزا پر ل (لام مفتوحہ) داخل ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
لَوۡ كَانَ عَرَضًا قَرِيۡبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوۡكَ وَلٰـكِنۡۢ بَعُدَتۡ عَلَيۡهِمُ الشُّقَّةُ (سورۃ التوبہ آیت 42)
اگر مال غنیمت آسانی سے حاصل ہونے والا اور سفر بھی ہلکا ہوتا تو یہ تمہارے ساتھ شوق سے چل دیتے لیکن مسافت انکو دور دراز نظر آئی تو عذر کریں گے۔
اور اگر لو سے پہلے و داخل ہو (ولو)، تو یہ "اگرچہ" کا معنی دے گا۔ ارشاد باری ہے:
اَيۡنَ مَا تَكُوۡنُوۡا يُدۡرِككُّمُ الۡمَوۡتُ وَلَوۡ كُنۡتُمۡ فِىۡ بُرُوۡجٍ مُّشَيَّدَةٍ (سورۃ النساء آیت 78)
اے جہاد سے ڈرنے والو تم کہیں رہو موت تو تمہیں آ کر رہے گی خواہ مضبوط قلعوں میں رہو
اور لو کے بعد لا کا اضافہ کرنے سے "اگر نہ" کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے فرمایا:
يَقُوۡلُ الَّذِيۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِلَّذِيۡنَ اسۡتَكۡبَرُوۡا لَوۡلَاۤ اَنۡـتُمۡ لَـكُـنَّا مُؤۡمِنِيۡنَ‏ (سورۃ سبا آيت 31)
کمزور لوگ متکبّروں سے کہیں گے: اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایمان لے آتے

ماحصل :

لو میں جزا شرط سے مقید ہوتی ہے جو ان کی صورت میں نہیں ہوتی۔ امّا جب اگر کے معنوں میں آئے تو اس میں ما حرف زیادت ہے جو محض تحسین کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

الٹ دینا، اُوندھا کرنا

کے لیے ارکس اور ائتفک (افک) ، جثم، كبّ، کبکب اور قلّب، نکس اور نکّس کے الفاظ آتے ہیں۔

1: ارکس

رکس کے معنی کسی چیز کو اس کے سر پر الٹا کر دینا (یعنی سر نیچے ہو اور ٹانگیں اوپر) الٹا کر دینا یا اس کے پہلے سرے کو پچھلے سرے سے الٹا کر ملا دیا (م ل) تہ و بالا کر دیا۔ کہتے ہیں۔ ارکس الثوب في الصبغ بمعنی اُلٹا کر رنگ میں کپڑا ڈبویا (م ق) ارشاد باری ہے:
فَمَا لَـكُمۡ فِىۡ الۡمُنٰفِقِيۡنَ فِئَتَيۡنِ وَاللّٰهُ اَرۡكَسَهُمۡ بِمَا كَسَبُوۡا (سورۃ النساء آیت 88)
اب کیا سبب ہے کہ مسلمانو تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ بن گئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کو ان کے کرتوتوں کے سبب اوندھا کر دیا ہے۔

2: ائتفك

افک کے معنی کسی کو صحیح رخ کے موڑ دینا (م ل) اور اگر کسی صحیح رخ کے علاوہ کسی دوسرے رخ پر پٹخ دیا جائے تو اسے ائتفک کہتے ہیں (مف) قرآن میں ہے:
وَالۡمُؤۡتَفِكَةَ اَهۡوٰىۙ‏ (سورۃ النجم آیت 53)
اور الٹی ہوئی بستیوں کو اُسی نے نیچے دے پٹکا

3: جثم

پرندے کا سینہ کے بل زمین پر بیٹھنا اور پھر اس سے چمٹ جانا (فل ۱۸۶) کنایۃ کسی شخص کا سینہ کے بل زمین پر لیٹنا ۔ ارشاد باری ہے:
فَاَخَذَتۡهُمُ الرَّجۡفَةُ فَاَصۡبَحُوۡا فِىۡ دَارِهِمۡ جٰثِمِيۡنَ‏ (سورۃ الاعراف آیت 78)
پس انکو زلزلے نے آ پکڑا سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

4: كَبَّ

كَبَّ الناء کے معنی برتن کو الٹا کر کے رکھ دینے کے ہیں (منجد) اور کبّ فلانا کے معنی کسی کو منہ کے بل گرا دینے کے (مف) قرآن میں ہے:
وَمَنۡ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتۡ وُجُوۡهُهُمۡ فِىۡ النَّارِؕ هَلۡ تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ (سورۃ النمل آیت 90)
اور جو برائی لے کر آئے گا تو ایسے لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے۔ تمکو تو ان ہی اعمال کا بدلہ ملے گا جو تم کرتے رہے ہو۔

5: کبکب

اس میں تکرار لفظی ہے جو اس کے معانی میں بھی شدت پیدا کر رہا ہے۔ یعنی کسی چیز کو اوپر سے لڑھکا کر گڑھے میں پھینک دینا۔ (مف - منجد) ارشاد باری ہے:
فَكُبۡكِبُوۡا فِيۡهَا هُمۡ وَالۡغَاوٗنَۙ‏ (سورۃ الشعراء آیت 94)
سو وہ (بت بھی) اس (دوزخ) میں اوندھے منہ گرا دیئے جائیں گے اور گمراہ لوگ (بھی)

6: قلّب

تقلیب الشیء بمعنی کسی چیز کو پھیرنے اور ایک حالت سے دوسری حالت میں لوٹانے کے ہیں اور قلب الثوب بمعنی کپڑے کو الٹنا۔ قلب کا استعمال مادی اور معنوی دونوں طرح ہوتا ہے۔
مادی کی مثال یہ ہے
يَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡهُهُمۡ فِىۡ النَّارِ يَقُوۡلُوۡنَ يٰلَيۡتَـنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰهَ وَاَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا‏ (سورۃ الاحزاب آیت 66)
جس دن انکے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں تو کہیں گے اے کاش ہم اللہ کی فرمانبرداری کرتے اور رسول ﷺ کا حکم مانتے۔
اور معنوی کی مثال یہ ہے:
لَـقَدِ ابۡتَغَوُا الۡفِتۡنَةَ مِنۡ قَبۡلُ وَقَلَّبُوۡا لَكَ الۡاُمُوۡرَ حَتّٰى جَآءَ الۡحَـقُّ وَظَهَرَ اَمۡرُ اللّٰهِ وَهُمۡ كٰرِهُوۡنَ‏ (سورۃ التوبہ آیت 48)
یہ پہلے بھی طالب فساد رہے ہیں اور بہت سی باتوں میں تمہارے لئے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور اللہ کا حکم غالب ہوا اور وہ برا مانتے ہی رہ گئے۔

7: نکس اور نکّس

نکس بمعنی اوندھا کرنا اور نکس راسہ، بمعنی ذلت یا ندامت سے سر جھکا دینا۔ یہ محاورتا استعمال ہوتا ہے اور نکس المريض مریض کا دوبارہ بیمار پڑنا اور النّکاس بمعنی بیماری کا دوبارہ عود کر آنا اور النکس کی بمعنی بیماری کا دوبارہ عود کر آنا ،گر کر نہ سنبھلنا۔ پھر دوبارہ پہلے سے زیادہ زور سے گرنا اور انکس بمعنی بہت بوڑھے لوگ اور نکس بمعنی اوندھا کرنا اور انتکس بمعنی سر کے بل گرنا، دوبارہ بیمار پڑنا۔ (منجد مف) ارشاد باری ہے:
ثُمَّ نُكِسُوۡا عَلٰى رُءُوۡسِہمۡ‌ۚ لَـقَدۡ عَلِمۡتَ مَا هٰٓؤُلَآءِ يَنۡطِقُوۡنَ‏ (سورۃ الانبیاء آیت 65)
پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے کر دیئے گئے (یعنی ان کی عقلیں اوندھی ہوگئیں اور کہنے لگے بیشک (اے ابراہیم!) تم خود ہی جانتے ہو کہ یہ تو بولتے نہیں ہیں
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَمَنۡ نُّعَمِّرۡهُ نُـنَكِّسۡهُ فِىۡ الۡخَـلۡقِ‌ؕ اَفَلَا يَعۡقِلُوۡنَ‏ (سورۃ یس آیت 68)
اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں اسے قوت و طبیعت میں واپس (بچپن یا کمزوری کی طرف) پلٹا دیتے ہیں، پھر کیا وہ عقل نہیں رکھتے

ماحصل:

  • ارکس، نچلا سرا اوپر اور اوپر کا نیچے کر کے پھینک دینا۔
  • ائتفک: صحیح رخ کے علاوہ دوسرے رخ پر پٹخ دینا۔
  • جثم: سینہ کے بل گرنا یا چمٹنا۔
  • کبّ: اوندھے منہ گرنا۔
  • کبکب: لڑھکا کر اوندھے منہ گڑھے میں گرا دینا۔
  • قلّب: کسی چیز کی حالت یا معاملہ کو الٹ دینا یا الٹ پلٹ کر دینا۔
  • نکس یا نکّس: سر کو ندامت سے جھکانا۔ بیماری کا پہلے شدید حملہ ہونا جس سے بیمار سنبھل نہ سکے۔ بڑھاپے کا آ دبانا جس سے عقل و حواس زائل ہونے لگے۔
الٹ پلٹ کرنے کے لیے فتن اور ابتلی "آزمائش کرنا" میں دیکھئے اور قلّب "الٹ دینا" میں۔
 
Top