مترادفات القرآن (ا)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

الگ کرنا (جدا یا علیحدہ کرنا)

کے لیے فرق ، فتق ، عزل، جنب ، ماز (میز) اور زیّل کے الفاظ آتے ہیں۔

1: فرق

کسی چیز کو پھاڑ کر الگ کر دینا۔ (مف) پھر اس الگ شدہ حصہ کو فرق اور اگر انسانوں کا گروہ ہو تو اسے فرقہ کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے۔
وَاِذۡ فَرَقۡنَا بِكُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَيۡنٰکُمۡ وَاَغۡرَقۡنَآ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَاَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 50)
اور جب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا پھر تم کو تو نجات دی اور فرعون کی قوم کو غرق کر دیا اور تم دیکھ رہے تھے۔
اور دوسری جگہ ہے :
فَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسٰٓى اَنِ اضۡرِبْ بِّعَصَاكَ الۡبَحۡرَ‌ؕ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرۡقٍ كَالطَّوۡدِ الۡعَظِيۡمِ‌ۚ‏ (سورۃ الشعراء آیت 63)
پھر ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اپنا عصا دریا پر مارو، پس دریا (بارہ حصوں میں) پھٹ گیا اور ہر ٹکڑا زبردست پہاڑ کی مانند ہو گیا
پھر فرق کا استعمال معنوی طور پر بھی ہوتا ہے یعنی دو قسم کی چیزیں جو بظاہر ایک ہی نظر آتی ہوں مگر حقیقتاً الگ الگ ہوں تو ان کو الگ کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالَ رَبِّ اِنِّىۡ لَاۤ اَمۡلِكُ اِلَّا نَفۡسِىۡ وَاَخِىۡ‌ فَافۡرُقۡ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَ الۡـقَوۡمِ الۡفٰسِقِيۡنَ‏ (سورۃ المائدۃ آیت 25)
موسٰی نے اللہ سے التجا کی کہ پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا۔ سو تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں جدائی کردے۔
اور فرّق بمعنی کسی جماعت سے الگ ہونا، علیحدہ فرقہ بنا لینا۔ قرآن میں ہے :
اِنَّ الَّذِيۡنَ فَرَّقُوۡا دِيۡنَهُمۡ وَكَانُوۡا شِيَـعًا لَّسۡتَ مِنۡهُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ‌ؕ اِنَّمَاۤ اَمۡرُهُمۡ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ‏ (سورۃ الانعام آیت 159)
جن لوگوں نے اپنے دین کے حصے بخرے کر لئے اور خود بھی کئ کئ فرقے ہو گئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام اللہ کے حوالے پھر جو جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو سب بتائے گا۔

2: فتق

فتق کے معنی کسی چیز میں بڑا سا شگاف ڈال کر اسے کھول دینا۔ جیسے نافہ مشک کو کھولا جاتا ہے (م ل) یا دو متصل چیزوں کو الگ الگ کرنا اور اس کی ضد رتق ہے یعنی کسی چیز کا گڈمڈ شدہ اور جڑی ہوئی ہونا (مف)چنا نچہ قرآن میں ہے:
اَوَلَمۡ يَرَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ كَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰهُمَا‌ؕ وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ كُلَّ شَىۡءٍ حَىٍّ‌ؕ اَفَلَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ (سورۃ الانبیاء آیت 30)
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے

3: عزل

کسی کو اس کے اصل کام یا مقصد سے علیحدہ کر دینا، بیکار کر دینا۔ ایک جانب لگا دینا (م ر – منجد) اسی سے معزول اس شخص کو کہتے ہیں جو کام سے علیحدہ کر دیا گیا ہو۔ اور عزلت گوشہ تنہائی کے معنوں میں آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
تُرۡجِىۡ مَنۡ تَشَآءُ مِنۡهُنَّ وَتُـــْٔوِىۡۤ اِلَيۡكَ مَنۡ تَشَآءُؕ وَمَنِ ابۡتَغَيۡتَ مِمَّنۡ عَزَلۡتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكَؕ (سورۃ الاحزاب آیت 51)
اے پیغمبر ﷺ تمکو یہ بھی اختیار ہے کہ جس بیوی کو چاہو پیچھے رکھو اور جسے چاہو اپنے پاس رکھو۔ اور جسکو تم نے پیچھے کر دیا ہو اگر اسکو پھر اپنے پاس طلب کر لو تو تم پر کچھ گناہ نہیں

4: جنب

جنب کے بنیادی معنی دو ہیں (۱) پہلو (۲) بعد ہونا اور جنب کے معنی کسی کو کسی آفت یا مصیبت سے دُور رکھ کر بچا لینا (م ل) قرآن میں ہے:
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجۡنُبۡنِىۡ وَبَنِىَّ اَنۡ نَّـعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَؕ‏ (سورۃ ابراہیم آیت 35)
اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار اس شہر کو لوگوں کے لئے امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھیو۔

5: ماز (میز)

کسی چیز کو دوسری چیزوں سے کسی فوقیت اور ترجیح کی بنا پر الگ کرنا اور ماز الشیء بمعنی چیز کو دوسری چیزوں پر ترجیح دینا۔ فوقیت دینا (منجد) قرآن کریم میں ہے :
مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلٰى مَاۤ اَنۡتُمۡ عَلَيۡهِ حَتّٰى يَمِيۡزَ الۡخَبِيۡثَ مِنَ الطَّيِّبِ (سورۃ آل عمران آیت 179)
لوگو جب تک اللہ ناپاک کو پاک سے الگ نہ کر دے گا مومنوں کو اس حال میں جس میں تم ہو ہرگز نہیں رہنے دے گا۔

6: زیّل

بمعنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے زائل کرنا (مف)، زال عن مکانہ جگہ سے ہٹانا اور رذیّل بمعنی کسی کو اس کی جگہ سے ہٹا کر دوسروں سے الگ کر دینا یا متفرق کرنا (منجد) ہے ۔ ارشاد باری ہے:
وَيَوۡمَ نَحۡشُرُهُمۡ جَمِيۡعًا ثُمَّ نَقُوۡلُ لِلَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا مَكَانَكُمۡ اَنۡتُمۡ وَشُرَكَآؤُكُمۡ‌ۚ فَزَيَّلۡنَا بَيۡنَهُمۡ‌ وَقَالَ شُرَكَآؤُهُمۡ مَّا كُنۡتُمۡ اِيَّانَا تَعۡبُدُوۡنَ‏ (سورۃ یونس آیت 28)
اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے پھر مشرکوں سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہرے رہو تو ہم ان میں جدائی ڈال دیں گے اور ان کے شریک ان سے کہیں گے کہ تم ہم کو تو نہیں پوجا کرتے تھے۔

ماحصل:

  • فرق کسی چیز کو پھاڑ کر الگ الگ کر دینا۔
  • فتق: کسی چیز کو پھاڑ کر کھول دینا۔ یا دو متصل چیزوں کو منفصل کرنا۔
  • عزل: کسی کو اس کے کام سے الگ کرنا۔
  • جنب: کسی کو الگ کر کے کسی مصیبت سے دور رکھنا۔
  • ماز: کسی چیز کو دوسری فوقیت اور ترجیح کی بنا پر الگ کرنا۔
  • زیّل: کسی کو ایک جگہ سے سرکا کر یا ہٹا کر دوسروں سے الگ کر دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

الگ ہونا (جدا ہونا - علیحدہ ہونا)

کے لیے فرق سے تفرق، عزل سے اعتزل ، جنب سے تَجَنّبَ ، ماز سے امتاز اور زیّل سے تزیّل کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔ ان پر لغوی بحث ہو چکی۔ اب ان کی مثالیں دیکھیے :

1: تفرّق

تجمّع کی ضد ہے۔ یعنی الگ الگ اور متفرق ہو جانا ۔ پھٹ کر علیحدہ علیحدہ ہو جانا (منجد)
ارشاد باری ہے:
وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا (سورۃ آل عمران آیت 103)
اور سب مل کر اللہ کی ہدایت کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور فرقے فرقے نہ ہو جانا۔

2: اعتزل

کسی چیز سے کنارہ کش ہو جانا خواہ کسی کام سے یا عقیدہ سے یعنی خواہ یہ کنارہ کشی ظاہری ہو یا معنوی سب صورتوں میں اعتزل استعمال ہوتا ہے۔ اب ان کی مثالیں دیکھیے ،
اعتقادات سے یعنی معنوی کنارہ کشی کے لیے :
وَاِنۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا لِىۡ فَاعۡتَزِلُوۡنِ‏ (‎سورۃ الدخان آیت 21)
اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے کنارہ کش ہو جاؤ
کسی کام سے یعنی ظاہری کنارہ کشی کے لیے:
وَ يَسۡـَٔـلُوۡنَكَ عَنِ الۡمَحِيۡضِ‌ۙ قُلۡ هُوَ اَذًى فَاعۡتَزِلُوۡا النِّسَآءَ فِىۡ الۡمَحِيۡضِ (سورۃ البقرۃ آیت 222)
اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو وہ تو نجاست ہے سو ایّام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔

3: تجنّب

ایک طرف ہو کر دُور رہنا ۔ پہلوتہی کرنا۔
سَيَذَّكَّرُ مَنۡ يَّخۡشٰىۙ‏ وَيَتَجَنَّبُهَا الۡاَشۡقَىۙ‏ (سورۃ الاعلی آیت 10، 11)
البتہ وہی نصیحت قبول کرے گا جو اﷲ سے ڈرتا ہوگا اور بدبخت اس (نصیحت) سے پہلو تہی کرے گا

4: امتاز

کسی فضیلت اور ترجیح کی بنیاد پر اچھی چیز کا بری سے یا بری چیز کا اچھی سے الگ ہو جانا۔
وَامۡتَازُوۡا الۡيَوۡمَ اَيُّهَا الۡمُجۡرِمُوۡنَ‏ (سورۃ یس آیت 59)
اور اے مجرمو! تم آج (نیکو کاروں سے) الگ ہوجاؤ
ان کے علاوہ درج ذیل الفاظ بھی الگ ہونا کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
خلَا (خلو)، خَلَص، فصل، انبذ (نبذ) تزيل (زیل) اور تجافی (جفو)

5: خلا

(خلو) خلا خالی جگہ کو کہتے ہیں جہاں عمارت و مکان وغیرہ کچھ نہ ہو۔ یہ لفظ زمان و مکان دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے خلا الزمان کے معنی زمانہ گزر گیا اور ظروف مکانی کے لحاظ سے خلا الرجل کے معنی کسی کے ساتھ علیحدگی (خلوت) میں ملاقات کرنا ہو گا (مف - منجد)
وَاِذَا لَقُوۡا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡآ اٰمَنَّاۚ وَاِذَا خَلَوۡا اِلٰى شَيٰطِيۡنِهِمۡۙ قَالُوۡآ اِنَّا مَعَكُمۡۙ اِنَّمَا نَحۡنُ مُسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 14)
اور یہ لوگ جب مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مسلمانوں سے تو ہم ہنسی کیا کرتے ہیں۔

6: خلص

کسی چیز کو آمیزش سے پاک کرنا اور اس سے ملاوٹ علیحدہ کرنا اور اس کی ضد خلط ہے۔
فَلَمَّا اسۡتَيۡــَٔسُوۡا مِنۡهُ خَلَصُوۡا نَجِيًّا‌ (سورۃ یوسف آیت 80)
آخر جب وہ اس سے ناامید ہو گئے تو الگ ہو کر صلاح کرنے لگے۔

7: فصل

دو چیزوں کا یوں علیحدہ ہونا کہ ان میں فاصلہ ہو جائے (مف) کسی مقام سے روانہ ہو جانا :
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوۡتُ بِالۡجُـنُوۡدِۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبۡتَلِيۡکُمۡ بِنَهَرٍ (سورۃ البقرۃ آیت 249)
غرض جب طالوت فوجیں لے کر روانہ ہوا تو اس نے ان سے کہا کہ اللہ ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے۔

8: انتبذ

نبذ کے معنی کسی چیز کو نا قابل التفات سمجھ کر پھینک دینا (مف) اور انتبذ کے معنی خود احساس کمتری میں مبتلا ہو کر دوسروں سے علیحدہ ہو جانے کے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَاذۡكُرۡ فِىۡ الۡـكِتٰبِ مَرۡيَمَ‌ۘ اِذِ انتَبَذَتۡ مِنۡ اَهۡلِهَا مَكَانًا شَرۡقِيًّاۙ‏ (سورۃ مریم آیت 16)
اور کتاب یعنی قرآن میں مریم کا بھی تذکرہ کرو جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مکان کے مشرقی حصے میں چلی گئیں۔
اس مقام پر حضرت مریم کے لیے انتبذ کا لفظ اس لیے استعمال ہوا ہے کہ وہ حضرت عیسی کے حمل کی وجہ سے لوگوں کے اعتراضات اور تعن و تشنیع سے بچنے کے لیے لوگوں سے علیحدہ ہو کر شرقی مکان میں عزلت نشین ہو گئی تھیں۔

9: تزیّل

زال کے معنی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دنیا (مف) اسی نسبت سے تزیل کے معنی کسی چیز کا اپنی جگہ چھوڑ کر ادھر ادھر ہو جانا۔ ہٹ کر پرے ہو جانا۔ ارشاد باری ہے:
لَوۡ تَزَيَّلُوۡا لَعَذَّبۡنَا الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡهُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًا‏ (سورۃ فتح آیت 25)
اگر (وہاں کے کافر اور مسلمان) الگ الگ ہو کر ایک دوسرے سے ممتاز ہو جاتے تو ہم ان میں سے کافروں کو دردناک عذاب کی سزا دیتے

10: تجافی

جفوة اور جفاء کے معنی ظلم اور جفا یجفوا کے معنی ایک جگہ قرار نہ پکڑنا ہے (منجد) اور اسی نسبت سے تجافی کا معنی بیقراری کی وجہ سے اپنی جگہ بدلنا یا اس جگہ سے الگ رہنا ہیں۔ ارشاد باری ہے۔
تَتَجَافٰى جُنُوۡبُهُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ يَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ خَوۡفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَ‏ (سورۃ سجدۃ آیت 16)
ان کے پہلو اُن کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں

ماحصل:

  • تفرق: جماعت سے الگ اور متفرق ہو جانا۔
  • اعتزل: کسی کام سے یا عقیدہ سے یا انسانوں سے کنارہ کشی اختیار کر لینا۔
  • تجنّب: کسی چیز سے الگ ہو کر دور چلے جانا تا کہ مصیبت سے نجات ہو۔
  • امتاز: کسی خصوصیت کی بنا پر دوسروں سے الگ ہونا۔
  • خلا: تنہائی میں ملنے کے لیے علیحدہ ہونا۔
  • خلص: آمیزش کا اصل چیز سے الگ ہونا اور خالص باقی رہ جانا۔
  • انتبذ: احساس کمتری کی بنا پر دوسروں سے الگ ہونا۔
  • تزیّل: اپنی جگہ چھوڑ دینا اور ہٹ کر علیحدہ ہونا۔
  • تجافی: بیقراری کی وجہ سے کسی چیز سے الگ ہونا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

امید لگانا

کے لیے امل، امنی اور رجا کے الفاظ آتے ہیں۔

1: امل

امل کی بحث "آرزو" میں گزر چکی ہے اور اس کے معنی ایسی آرزو اور امید کے ہیں جو بظاہر غیر متوقع اور دیر سے وقوع پذیر ہونے والی ہو۔ گویا اعمال میں مدت اور انتظار کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ امید لگائے رکھنے کے معنی میں آتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے:
اَلۡمَالُ وَ الۡبَـنُوۡنَ زِيۡنَةُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ۚ وَالۡبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيۡرٌ عِنۡدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيۡرٌ اَمَلاً‏ (سورۃ الکہف آیت 46)
مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی رونق و زینت ہیں۔ اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے پروردگار کے ہاں بہت اچھی اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں۔

2: امنی

امنية بمعنی جھوٹی اور باطل آرزو اور امانی اس کی جمع ہے۔ یہ بحث بھی آرزو کرنا ، میں گزر چکی ہے اور امنی کا لفظ کسی کو ایسی ہی باطل اور جھوٹی امید دلانے کے معنوں میں آتا ہے چنانچہ قرآن میں ہے
وَّلَاُضِلَّـنَّهُمۡ وَلَاُمَنِّيَنَّهُمۡ وَلَاٰمُرَنَّهُمۡ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَلَاَمُرَنَّهُمۡ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰهِ (سورۃ النساء آیت 119)
اور ان کو گمراہ کرتا اور انہیں امیدیں دلاتا رہوں گا اور یہ سکھاتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں اور انہیں سمجھاتا رہوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑتے رہیں گے۔

3: رجاء

(رجو) رجا کے بنیادی معنی دو ہیں (۱) کنارہ (۲) امید لگانا (م ل) یہاں دوسرے معنی سے غرض ہے اور اس میں بھی امل کی طرح مدت اور انتظار کا تصور پایا جاتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے
وَاٰخَرُوۡنَ مُرۡجَوۡنَ لِاَمۡرِ اللّٰهِ اِمَّا يُعَذِّبُهُمۡ وَاِمَّا يَتُوۡبُ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ (سورۃ التوبہ آیت 106)
اور کچھ دوسرے لوگ ہیں جنکا کام اللہ کے حکم پر موقوف ہے۔ چاہے وہ انکو عذاب دے اور چاہے معاف کر دے۔ اور اللہ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔
البتہ رجاء ایسی امید کو کہتے ہیں جس کے پورا ہونے کا ظن غالب ہوتا ہے (اور اس کی ضد یاس ہے)۔
ارشاد باری ہے:
وَلَا تَهِنُوۡا فِىۡ ابۡتِغَآءِ الۡقَوۡمِ‌ؕ اِنۡ تَكُوۡنُوۡا تَاۡلَمُوۡنَ فَاِنَّهُمۡ يَاۡلَمُوۡنَ كَمَا تَاۡلَمُوۡنَ‌ۚ وَتَرۡجُوۡنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا يَرۡجُوۡنَ‌ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا‏ (سورۃ النساء آیت 104)
اور ان کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا۔ اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بےآرام ہوتے ہیں اور تم تو اللہ سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے بڑی حکمت والا ہے۔

ماحصل:

  • امل: دیر سے پوری ہونے والی اور بظاہر غیر متوقع امید کے لیے آتا ہے۔
  • امنی: جھوٹی قسم کی امیدیں دلانے کے لیے۔
  • رجا: ایسی امید کے لیے آتا ہے جس کے وقوع پذیر ہونے کا ظن غالب ہو خواہ دیر سے ہو۔
انبار اور انبوہ کے لیے دیکھیے "وافر، بہت"۔
انتخاب کرنا کے لیے دیکھیے "چن لینا"
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

انتڑیاں

کے لیے دو الفاظ حوايا (حوی) اور امعاء (معی) آتے ہیں۔

1: حوایا

(حویّۃ) کی جمع ہے، حوایا سے مراد سانپ کی طرح کنڈلی مارنے والی انتڑیاں ہیں۔ حیّۃ سانپ کو کہتے ہیں۔ تحوى الحية، سانپ کے کنڈلی مارنے کو اور حاوی سانپ کا منتر پڑھنے والے کو کہا جاتا ہے (منجد) اور یہ وہ رودہ مستقیم ہے جو کنڈلی مارتے مارتے مقعد تک چلی جاتی ہے۔ (م ا)
وَعَلَى الَّذِيۡنَ هَادُوۡا حَرَّمۡنَا كُلَّ ذِىۡ ظُفُرٍ‌‌ۚ وَمِنَ الۡبَقَرِ وَالۡغَـنَمِ حَرَّمۡنَا عَلَيۡهِمۡ شُحُوۡمَهُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتۡ ظُهُوۡرُهُمَاۤ اَوِ الۡحَـوَايَاۤ اَوۡ مَا اخۡتَلَطَ بِعَظۡمٍ‌ؕ ذٰلِكَ جَزَيۡنٰهُمۡ بِبَـغۡيِهِمۡ‌‌ۖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ‏ (سورۃ الانعام آیت 146)
اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیئے تھے۔ اور گایوں اور بھیڑ بکریوں سے انکی چربی ان پر حرام کر دی تھی۔ سوائے اسکے جو انکی پیٹھ پر لگی ہو یا آنتوں میں لگی ہو یا ہڈی سے ملی ہو۔ یہ سزا ہم نے انکو انکی شرارت کے سبب دی تھی اور ہم یقینًا سچ کہنے والے ہیں۔

2: امعاء

یہ معّی کی جمع ہے۔ یہ لفظ عام ہے جو ہر قسم کی چھوٹی بڑی انٹریوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ارشاد باری ہے:
كَمَنۡ هُوَ خَالِدٌ فِىۡ النَّارِ وَسُقُوۡا مَآءً حَمِيۡمًا فَقَطَّعَ اَمۡعَآءَهُمۡ‏ (سورۃ محمد آیت 16)
(کیا یہ پرہیزگار) ان لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جو ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں اور جنہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا تو وہ ان کی آنتوں کو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

انتظار کرنا

کے لیے انتظر، ارتقب اور تربّص کے الفاظ آتے ہیں۔

1: انتظر

نظر کے بنیادی معنی دو ہیں۔ (1) معائنہ یعنی آنکھوں سے کوئی چیز دیکھنا اور (۲) تأمل الشیء کسی چیز کے لیے انتظار اور مہلت (م ل) یہاں دوسرے معنی سے غرض ہے۔ قرآن کریم میں نظرۃ اسی معنی میں آیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ‌ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 280)
اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو اسے کشائش کے حاصل ہونے تک مہلت دو اور اگر زر قرض بخش دو تو وہ تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو۔
اور انتظر، کسی امید کے پورا ہونے کا وقت گزارنا اور یہ لفظ انتظار کے لیے عام ہے اور اس لحاظ سے نظرۃ اور انتظار قریب المعنیٰ ہیں۔ اور انتظار خیر و شر دونوں میں۔ نیز شک اور یقین دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (فق ل 57) ارشاد باری ہے:
وَقُل لِّـلَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ اعۡمَلُوۡا عَلٰى مَكَانَتِكُمۡؕ اِنَّا عٰمِلُوۡنَۙ‏ وَانْـتَظِرُوۡا‌ۚ اِنَّا مُنۡتَظِرُوۡنَ‏ (سورۃ ھود آیت 121، 122)
اور جو لوگ ایمان نہیں لائے ان سے کہدو کہ تم اپنی جگہ عمل کئے جاؤ ہم اپنی جگہ عمل کئے جاتے ہیں۔اور نتیجہ اعمال کا تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔

2: ارتقب

رقبة گردن کو کہتے ہیں اور رقب کسی کی گردن پر نظر رکھنے یا اس کی نگرانی کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے (مف) اور رقبہ کے معنی احتیاط نگہبانی، بچاؤ اور خوف ہے (منجد) لہذا ارتقب سے مراد ایسی انتظار ہے جس میں انسان چوکس اور چوکنا رہے۔ دوسرے کی حرکات و سکنات کا خیال رکھے اور اپنے بچاؤ کا بھی۔
قرآن میں ہے:
وَيٰقَوۡمِ اعۡمَلُوۡا عَلٰى مَكَانَتِكُمۡ اِنِّىۡ عَامِلٌ‌ؕ سَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَۙ مَنۡ يَّاۡتِيۡهِ عَذَابٌ يُّخۡزِيۡهِ وَمَنۡ هُوَ كَاذِبٌ‌ؕ وَارۡتَقِبُوۡۤا اِنِّىۡ مَعَكُمۡ رَقِيۡبٌ‏ (سورۃ ھود آیت 93)
‎اور اے قوم! تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ میں اپنی جگہ کام کئے جاتا ہوں تم کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے اور جھوٹا کون ہے اور تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

3: تربّص

ربص اور تربّص ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور یہ انتظار یا تو کسی معینہ مدت کے لیے ہوتا ہے یا کسی ایسے امر کے ہونے یا زائل ہونے کا جس کی توقع ہو (مف)۔ مثلاً اشیاء تجارت کی گرانی اور ازرانی کا۔ تربص بسلعة کا معنی ہے مال کی گرانی کا انتظار کرنا (منجد) اسی طرح عورت کے لیے اپنی عدت پوری کرنے کا انتظار تربّص کہلائے گا اور معنی زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے انتظار کرنا۔ (فق ل ۵۹) ارشاد باری ہے:
قُلۡ هَلۡ تَرَبَّصُوۡنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡدَى الۡحُسۡنَيَيۡنِ‌ؕ وَنَحۡنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمۡ اَنۡ يُّصِيۡبَكُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِّنۡ عِنۡدِهٖۤ اَوۡ بِاَيۡدِيۡنَا‌ ‌ۖ فَتَرَبَّصُوۡۤا اِنَّا مَعَكُمۡ مُّتَرَبِّصُوۡنَ‏ (سورۃ التوبہ آیت 52)
کہدو کہ تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک کے منتظر ہو اور ہم تمہارے حق میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ یا تو اپنے پاس سے تم پر کوئی عذاب نازل کرے یا ہمارے ہاتھوں سے تمہیں عذاب دلوائے سو تم بھی انتظار کرو۔ ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔

ماحصل:

  • انتظار: کسی امید کے وقت تک کی مدت گزارنا اور یہ لفظ عام ہے۔ خیر و شر میں اور شک و یقین دونوں صورتوں میں آتا ہے۔
  • ترقب: انتظار کرنا اور چوکس رہنا۔ کڑی نظر رکھنا عموماً برائی کے وقت کی انتظار کے لیے آتا ہے۔
  • تربّص: زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی مدت یا معینہ مدت کا انتظار۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

انجام (کار)

کے لیے منتہی، صار (صیر) اور عاقبۃ کے الفاظ آتے ہیں۔

1: منتهی

النہی کے معنی روکنا اور انتہی رک جانا کے معنوں میں آتا ہے ۔ النهاء و النهایة کسی چیز کی غایت اور آخر (منجد) اور نہایة الدار گھر کی چار دیواری کو کہتے ہیں (م ق) اور منتہی اسم ظرف ہے۔ زمانہ یا جگہ کے لحاظ سے کوئی چیز جہاں تک پہنچ کر رک جائے وہ اس کی آخری حد یا منتہی یا انجام ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ يُجۡزٰٮهُ الۡجَزَآءَ الۡاَوۡفٰىۙ‏ وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الۡمُنۡتَهٰىۙ‏ (سورۃ النجم آیت 41، 42)
پھر اُسے (اُس کی ہر کوشش کا) پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور یہ کہ (بالآخر سب کو) آپ کے رب ہی کی طرف پہنچنا ہے۔

2: صار

کے معنی میں دو باتیں بنیادی ہیں (۱) رجوع اور (۲) مآل یعنی انجام (م ل) اور صیر الامر سے مراد کسی کام کا آخری حصہ یا اس کی انتہا ہے۔ جب کسی شخص کا کوئی کام اختتام پذیر ہو تو کہتے ہیں فلان على صیر الأمر (منجد) پھر صار کے معنی ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونا بھی ہیں۔ (منجد) گویا صار کا لفظ کام کی نوعیت سے بھی تعلق رکھتا ہے ۔ ایک کام جس نہج پر ہو رہا ہے وہ کوئی اور رخ تو اختیار نہیں کرے گا اور جس انداز میں وہ جا کر ختم ہو گا اس آخری کیفیت کا نام صیر ہے۔ اور مصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل و حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے (مف) ارشاد باری ہے:
صِرَاطِ اللّٰهِ الَّذِىۡ لَهٗ مَا فِىۡ السَّمٰوٰتِ وَمَا فِىۡ الۡاَرۡضِ‌ؕ اَلَاۤ اِلَى اللّٰهِ تَصِيۡرُ الۡاُمُوۡرُ (سورۃ الشوری آیت 53)
(یہ صراطِ مستقیم) اسی اللہ ہی کا راستہ ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے۔ جان لو! کہ سارے کام اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں

3: عاقبة

عقب بمعنی ایڑی اور عقب کے معنی کسی کے پیچھے چلنا اور پیچھے آنا اور عاقبۃ ہر چیز کا آخر یا عمل کا انجام ہے (منجد) پھر عقب کے مفہوم میں شدت اور صعوبت بھی پائی جاتی ہے عاقبہ کے معنی کسی کو اس کے عمل کے بدلہ میں پکڑنا بھی ہے اور عقاب کا لفظ عموماً کسی بےے کام کے بدلہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ الۡاَحۡزَابُ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ وَهَمَّتۡ كُلُّ اُمَّةٍۢ بِرَسُوۡلِهِمۡ لِيَاۡخُذُوۡهُؕ وَجَادَلُوۡا بِالۡبَاطِلِ لِيُدۡحِضُوۡا بِهِ الۡحَقَّ فَاَخَذۡتُهُمۡ فَكَيۡفَ كَانَ عِقَابِ‏ (سورۃ غافر آیت 5)
اِن سے پہلے قومِ نوح نے اور اُن کے بعد (اور) بہت سی امتّوں نے (اپنے رسولوں کو) جھٹلایا اور ہر امّت نے اپنے رسول کے بارے میں ارادہ کیا کہ اسے پکڑ (کر قتل کر دیں یا قید کر) لیں اور بے بنیاد باتوں کے ذریعے جھگڑا کیا تاکہ اس (جھگڑے) کے ذریعے حق (کا اثر) زائل کر دیں سو میں نے انہیں (عذاب میں) پکڑ لیا، پس (میرا) عذاب کیسا تھا؟
گویا عاقبۃ کے لفظ کا اطلاق محض کسی کام کے انجام پر نہیں ہوتا بلکہ اس کام کے بدلہ پر بھی ہوتا ہے نیز لفظ اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے مثلاً
خیر کے لیے
قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهِ اسۡتَعِيۡنُوۡا بِاللّٰهِ وَاصۡبِرُوۡا‌ۚ اِنَّ الۡاَرۡضَ لِلّٰهِۙ يُوۡرِثُهَا مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ‌ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ‏ (سورۃ الاعراف آیت 128)
موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ سے مدد مانگو اور ثابت قدم رہو زمین تو اللہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اسکا مالک بناتا ہے۔ اور انجام تو پرہیزگاروں ہی کا بھلا ہوتا ہے۔
شر کے لیے:
قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ سُنَنٌۙ فَسِيۡرُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِ فَانظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُكَذِّبِيۡنَ‏ (سورۃ آل عمران آیت 137)
تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گذر چکے ہیں۔ تو تم زمین میں سیر کر کے دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔

ماحصل:

  • منتہی: کسی کام کا انجام جہاں جا کر وہ ختم ہوتا ہے، یہ عام ہے۔
  • صیر: کسی کام کا انجام اور اس کے ختم ہونے کا رخ اور طور طریق۔
  • عاقبۃ: کسی کام کے انجام اور اس کے بدلہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اندازہ لگانا

کے لیے دو الفاظ خرص اور قدّر استعمال ہوتے ہیں۔

1: خرص

خرص کے معنی محض ظن اور تخمین سے کام لینا خرص النخلة سے یہ مراد ہے کہ محض اٹکل سے اندازہ کرنا کہ اس کھجور کے درخت پر کتنا پھل ہو گا اور خرّاص ایسا تخمینہ لگانے والے آدمی کو کہتے ہیں (منجد) اور خراص بمعنی کذاب (بہت جھوٹا) بھی مستعمل ہے کیونکہ ایسا آدم بغیر علم اور حقیقت کے بات کرتا ہے اور یہی بات جھوٹ کی بنیاد ہے۔ ارشاد باری ہے:
سَيَـقُوۡلُ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشۡرَكۡنَا وَلَاۤ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمۡنَا مِنۡ شَىۡءٍ‌ؕ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ حَتّٰى ذَاقُوۡا بَاۡسَنَا‌ؕ قُلۡ هَلۡ عِنۡدَكُمۡ مِّنۡ عِلۡمٍ فَتُخۡرِجُوۡهُ لَـنَاؕ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا تَخۡرُصُوۡنَ‏ (سورۃ الانعام آیت 148)
جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا شرک کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھیراتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے تکذیب کی تھی جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ ہمارے عذاب کا مزہ چکھ کر رہے کہدو کیا تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے لاؤ۔ تم لوگ تو بس گمان کے پیچھے چلتے اور اٹکل کے تیر چلاتے ہو۔

2: قدّر:

قدر کے معنی کسی معاملہ کی تدبیر کرنا، کسی چیز کو تیار کرنا اور اس کی دیکھ بھال کرنا ہے (منجد) اور قدر (مف) سے مراد وہ قوانین فطرت ہیں جن کے تحت کوئی چیز وجود میں آتی اور ترتیب پاتی ہے اور یہ صفت اللہ تعالیٰ سے خاص ہے اور صرف اچھے معنوں میں آتا ہے (فق ل ۱۵۷)
اِنَّا كُلَّ شَىۡءٍ خَلَقۡنٰهُ بِقَدَرٍ‏ (سورۃ القمر آیت 49)
بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرّرہ اندازے کے مطابق بنایا ہے
اور قدّر کے کسی چیز کو اس مخصوص طرز پر بنانا اور تربیت کرنا ہے جیسا کہ حکمت کا تقاضا ہو، اور یہ لفظ عام ہے اور یہ اندازہ اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی (فق ل ۱۵۷) جیسا کہ یہ بات عقیدہ میں شامل ہے ۔ وَالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَ شَره من الله تعالی۔ ارشاد باری ہے:
هُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِيَآءً وَّالۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِيۡنَ وَالۡحِسَابَ‌ؕ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالۡحَـقِّ‌ۚ يُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ‏ (سورۃ یونس آیت 5)
وہی تو ہے جس نے سورج کو خوب روشن اور چاند کو بھی منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور کاموں کا حساب معلوم کرو یہ سب کچھ اللہ نے تدبیر سے پیدا کیا ہے سمجھنے والوں کے لئے وہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے۔

ماحصل:

  • خرص، ایسا اندازہ جس کی بنیاد علم حقیقت کی بجائے ظن و تخمین پر ہو۔ اور یہ ناقابل اعتماد ہوتا ہے۔
  • قدر وہ قوانین فطرت ہیں جو اللہ تعالی نے اپنی علم و حکمت سے مقرر کر رکھے ہیں اور مستحکم الدلائل ہوتے ہیں۔ اور قدّر ایسے قوانین پر مبنی اندازہ کو کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اندر

کے لیے خلال، باطن اور بطائن اور جوف کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

1: خلال

دو ایسی چیزوں کے اندر کوئی جگہ جن کا آپس میں تعلق ہو۔ خلال دانتوں کے درمیانی جگہ کو صاف کرنے کے تنکہ کو بھی کہتے ہیں اور اس جگہ کے صاف کرنے کو بھی۔ ایسے ہی ہاتھ کی انگلیوں اور داڑھی کے بالوں میں وضو کرتے ہوئے پانی سے خلال کیا جاتا ہے۔ منافقین کے بارے میں ارشاد باری ہے:
لَوۡ خَرَجُوۡا فِيۡكُمۡ مَّا زَادُوۡكُمۡ اِلَّا خَبَالاً وَّلَااََوۡضَعُوۡا خِلٰلَكُمۡ يَـبۡغُوۡنَكُمُ الۡفِتۡنَةَ ۚ وَفِيۡكُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَهُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالظّٰلِمِيۡنَ‏ (سورۃ التوبہ آیت 47)
اگر وہ تم میں شامل ہو کر نکل بھی کھڑے ہوتے تو تمہارے درمیان شرارت کرتے اور تم میں فساد ڈلوانے کی غرض سے دوڑے دوڑے پھرتے۔ اور تم میں انکے جاسوس بھی ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

2: باطن

بطن پیٹ اور ہر چیز کے اندرونی حصہ کو کہتے ہیں اور باطن صرف کسی چیز کے اندرونی حصہ، اندرونی جانب یا اندر کو کہا جاتا ہے (منجد) ارشاد باری ہے:
فَضُرِبَ بَيۡنَهُمۡ بِسُوۡرٍ لَّهٗ بَابٌؕ بَاطِنُهٗ فِيۡهِ الرَّحۡمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنۡ قِبَلِهِ الۡعَذَابُؕ‏ (سورۃ حدید آیت 13)
تو (اسی وقت) ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا، اس کے اندر کی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی جانب اُس طرف سے عذاب ہوگا

3: بطائن

بطانۃ کی جمع ہے اور بطانۃ لباس کے اندرونی طرف لگے ہوئی کپڑا یا استر کو بھی کہتے ہیں اور بھید کو بھی (منجد) نیز رازدار دوست کو بھی۔ قرآن میں ہے:
مُتَّكِــِٕيۡنَ عَلٰى فُرُشٍۢ بَطَآٮِٕنُهَا مِنۡ اِسۡتَبۡرَقٍ‌ؕ وَجَنَا الۡجَـنَّتَيۡنِ دَانٍ‌ۚ‏ (سورۃ الرحمن آیت 54)
اہلِ جنت ایسے بستروں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استر نفِیس اور دبیز ریشم (یعنی اَطلس) کے ہوں گے، اور دونوں جنتوں کے پھل (اُن کے) قریب جھک رہے ہوں گے

4: جوف

جوف بمعنی کھوکھلا ہونا اور جوّف بمعنی کھوکھلا کرنا۔ جوف پیٹ یا اندرونی حصہ کو کہتےہیں اور جوف البیت مکان کے اندرونی حصہ کو اور مجوف کھوکھلی چیز کو (منجد) گویا جوف میں جہاں اندر یا اندرونی حصہ کا تصور پایا جاتا ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ کھوکھلا پن، وسعت یا خلا کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
مَّا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَيۡنِ فِىۡ جَوۡفِهٖۚ (سورۃ الاحزاب آیت 4)
اللہ نے کسی آدمی کے لئے اس کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے

ماحصل:

  • خلال: دو ایسی چیزوں کے درمیان یا اندرونی حصہ جن کا آپس میں تعلق ہو۔
  • بطن: کسی چیز کا اندر یا اندرونی حصہ یا جانب۔
  • جوف: کسی چیز کا اندرونی خلا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اندھا

کے لیے اعمی، اکمہ، عمہ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اعمی

نابینا جو بصارت سے عاری ہو۔ آنکھوں کا اندھا (فل 39) جمع عمی۔ قرآن میں ہے:
قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُ (سورۃ الرعد آیت 16)
کہو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟
گویا اس لفظ کا اطلاق عموماً ظاہری آنکھوں کے اندھے پن پر ہوتا ہے۔ لیکن گاہے گاہے دل کے اندھے پن پر بھی ہوتا ہے۔ مثلاً

2: اکمہ

مادر زاد اندھے کو کہتے ہیں (م ل – منجد) قرآن میں ہے:
وَ تُبۡرِئُ الۡاَكۡمَهَ وَالۡاَبۡرَصَ بِاِذۡنِىۡ‌ۚ (سورۃ المائدۃ آیت 110)
اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے

3: عمہ

عمہ بمعنی فقدان بصیرت (منجد) اور بمعنی دل کا اندھا پن (م ق) اور بمعنی حیران ہونا۔ گمراہی میں بھٹکنا (منجد) اور بمعنی حیرانگی کی وجہ سے تردّد میں پڑنا (مف) ارشاد باری ہے:
اَللّٰهُ يَسۡتَهۡزِئُ بِهِمۡ وَيَمُدُّهُمۡ فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 15)
ان منافقوں سے اللہ ہنسی کرتا ہے اورانہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت و سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں۔

ماحصل:

مادر زاد اندھے کے لیے اکمہ اور اس کے علاوہ اعمی کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور عمہ بمعنی دل کا اندھا ہونا۔
اندھیرا کرنا – ہونا کے لیے دیکھئے "تاریکی چھانا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

انصاف

کے لیے قسط اور عدل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: قسط

کے معنی کسی کو اس کا حق پورا پورا ادا کر دینا یعنی اس کے بنیادی معنی ظلم سے بچنے کے ہیں (مف) اس لحاظ سے اس کا معنی انصاف کرنا کر لیا جاتا ہے۔ اور اس کا اطلاق ظاہری امور میں انصاف کرنے پر ہوتا ہے۔ اسی لیے میزان اور مکیال کو بھی قسط کہتے ہیں (فق ل 194)
وَاَقِيۡمُوۡا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُوۡا الۡمِيۡزَانَ‏ (سورۃ الرحمن آیت 9)
اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو
پھر قسط کا لفظ لغت ذوی الاضداد سے ہے۔ اگر قسط یقسط ہو تو اس کے معنی اوپر بیان ہوئے ہیں اور اگر قسط یقسط تو اس کے معنی کسی کے حق دبانے، حق کے خلاف کرنے اور حق سے تجاوز کرنا ہوں گے (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
وَاَمَّا الۡقٰسِطُوۡنَ فَكَانُوۡا لِجَهَنَّمَ حَطَبًاۙ‏ (سورۃ الجن آیت 15)
اور جو ظالم ہیں تو وہ دوزخ کا ایندھن ہوں گے
پھر کسی کے حق کی ادائیگی خواہ ایک مشت ہو یا کئی حصوں میں اس کے لیے قسط اور اقساط کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ گویا لفظ قسط کا استعمال حق کی ادائیگی کل اور جزو دونوں پر ہوتا ہے۔ لیکن ان معنوں میں اس کا استعمال قرآن کریم میں نہیں ہے۔ البتہ باب افعال ہو تو انصاف کرنا ہی کے معنوں میں آئے گا۔ ارشاد باری ہے:
فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ‌ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُقۡسِطِيۡنَ‏ (سورۃ الحجرات آیت 9)
پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بیشک اﷲ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے

2: عدل

میں بنیادی معنی دو پائے جاتے ہیں (1) توازن و تناسب کو قائم رکھنا (۲) دوسرے کو اس کا حق بے لاگ طریقہ سے دینا (ف ق) اور یہ روایت که بالعدل قامت السموت والارض یعنی زمین و آسمان عدل کے سہارے قائم ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کے سیاروں میں اس قدر توازن و تناسب اور ہم آہنگی ہے کہ اگر ان کی کشش اور حرکت میں ذرا بھی کمی بیشی ہو جائے تو زمین و آسمان ایک دوسرے سے ٹکرا کر کائنات فورا فنا ہو جائے۔ قرآن کریم کی درج ذیل آیت اسی پہلے معنی میں استعمال ہوئی ہے اور عدل کا تعلق ظاہری اور باطنی امور سب پر ہوتا ہے (فق ل ۱۹۴) اور یہ قسط سے بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِىۡ خَلَقَكَ فَسَوّٰٮكَ فَعَدَلَـكَۙ‏ (سورۃ الانفطار آیت 7)
جس نے (رحم مادر کے اندر ایک نطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے (اعضا سازی کے لئے ابتداءً) درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا
پھر یہ لفظ اسی لحاظ سے (۱) برابری اور (۲) عوض یا بدلہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً
یعنی دو چیزوں کا آپس میں برا بر ہونا۔
وَمَنۡ قَتَلَهٗ مِنۡكُمۡ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثۡلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحۡكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدۡلٍ مِّنۡكُمۡ هَدۡيًۢا بٰلِغَ الۡـكَعۡبَةِ اَوۡ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِيۡنَ اَوۡ عَدۡلُ ذٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوۡقَ وَبَالَ اَمۡرِهٖ‌ؕ عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ (سورۃ المائدۃ آیت 95)
مومنو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار کے جانور نہ مارنا۔ اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے تو یا تو اس کا بدلہ دے اور وہ یہ ہے کہ اسی طرح کا چوپایہ جسے تم میں سے دو معتبر شخص مقرر کر دیں قربانی کرے اور یہ قربانی کعبے پہنچائی جائے یا کفارہ دے اور وہ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے یا اسکے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کام کی سزا کا مزا چکھے اور جو پہلے ہو چکا وہ اللہ نے معاف کر دیا
(۲) بمعنی عوض - بدلہ - معاوضہ :
وَاتَّقُوۡا يَوۡمًا لَّا تَجۡزِىۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَيۡـًٔـا وَّلَا يُقۡبَلُ مِنۡهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤۡخَذُ مِنۡهَا عَدۡلٌ وَّلَا هُمۡ يُنۡصَرُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 48)
اوراس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے اور نہ لوگ کسی اور طرح مدد حاصل کرسکیں۔
اور عدل کا دوسرا مفہوم یعنی دوسرے کا حق دینا، ہی ہمارے زیر بحث ہے جو انصاف کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌ۖ وَاتَّقُوۡا اللّٰهَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏ (سورۃ المائدۃ آیت 8)
انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔
پھر ان معنوں میں بھی عدل کا لفظ ذوی الاضدار سے ہے۔ اگر عَدِل يَعْدِلُ باب سے آئے تو اس کے معنی ظلم کرنا یا نا انصافی کرنے کے ہوتے ہیں (منجد) قرآن کریم میں ہے:
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوۡرَؕ ثُمَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِرَبِّهِمۡ يَعۡدِلُوۡنَ‏ (سورۃ الانعام آیت 1)
ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کیلئے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرے اور روشنی بنائی پھر بھی کافر دوسری ہستیوں کو اپنے پروردگار کے برابر ٹھیراتے ہیں۔
لفظ عدل چونکہ وسیع مفہوم رکھتا ہے لہذا یہاں یعدلون کا ترجمہ خدا کے برابر ٹھہراتے یا خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں بھی کر لیا جاتا ہے۔

ماحصل:

  • قسط کا لفظ دوسرے کو اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے وہ یکمشت ہو یا بالاقساط۔ خصوصاً جبکہ باب افعال سے ہو اور اس کا تعلق ظاہری چیزوں سے ہوتا ہے۔
  • عدل: دوسرے کو اس کا پورا پورا حق یا اس کی مالیت کے برابر اس کا عوض دینا اور تناسب و مساوات کو ملحوظ رکھنا اور اس کا استعمال ظاہری اور باطنی امور میں عام ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

انکار کرنا

کے لیے ابی، انکر، حجد اور کفر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ابی

بمعنی کسی بات کو تسلیم نہ کرنا، شدت امتناع (مف) گردن کشی، قبول نہ کرنا۔ اڑ جانا (م ا) اور ابی کے معنی مکروہ جاننا، ناپسند کرنا کسی چیز سے ناخوش ہونا بھی ہے۔ (منجد) ارشاد باری ہے
وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓٮِٕكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡٓا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَۙ اَبٰى وَاسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 34)
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آکر کافر بن گیا۔

2: انکر

نکر کے معنی کسی چیز کو نہ پہچاننا، کسی چیز یا بات سے اجنبی ہونا (م ا) اور اس کی ضد عرف ہے۔ جس کے معنی کسی چیز کو پہچان لینے کے ہیں، یعنی ایسی بات جسے انسان کا دل قبول نہ کرے اور جو اچنبھا معلوم ہو۔ خواہ وہ بوجہ جہالت نہ سمجھ سکے یا سمجھتا ہو۔ (مف) ارشاد باری ہے
وَجَآءَ اِخۡوَةُ يُوۡسُفَ فَدَخَلُوۡا عَلَيۡهِ فَعَرَفَهُمۡ وَهُمۡ لَهٗ مُنۡكِرُوۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 58)
اور یوسف کے بھائی کنعان سے مصر میں غلہ خریدنے کے لئے آئے تو یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے انکو پہچان لیا اور وہ انکو نہ پہچان سکے۔
دوسرے مقام پر فرمایا :
وَهٰذَا ذِكۡرٌ مُّبٰرَكٌ اَنۡزَلۡنٰهُ‌ؕ اَفَاَنۡتُمۡ لَهٗ مُنۡكِرُوۡنَ (سورۃ الانبیاء آیت 50)
یہ (قرآن) برکت والا ذکر ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، کیا تم اِس سے انکار کرنے والے ہو۔

3: جحد

بمعنی کسی بات کا علم ہو جانے کے بعد دیدہ دانستہ انکار کر دینا (م ا) ایسی بات کا زبان سے انکار کرنا جسے دل صحیح تسلیم کرتا ہو ۔ ارشاد باری ہے:
وَجَحَدُوۡا بِهَا وَاسۡتَيۡقَنَـتۡهَاۤ اَنۡفُسُهُمۡ ظُلۡمًا وَّعُلُوًّا‌ؕ فَانْظُرۡ كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُفۡسِدِيۡنَ (سورۃ النمل آیت 14)
اور بےانصافی اور غرور سے انکو ماننے سے انکار کیا جبکہ انکے دل ان کو مان چکے تھے۔ سو دیکھ لو کہ فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔​

4: کفر

حق کو نہ (پہچاننا) اور اس کے بنیادی معنی کسی چیز کو چھپانے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ہیں۔ اور کسان کو بھی کافر کہا جاتا ہے (منجد) کیونکہ وہ زمین میں دانہ کو چھپا دیتا ہے۔ اور ان معنوں میں بھی یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا لَعِبٌ وَّلَهۡوٌ وَّزِيۡنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيۡنَكُمۡ وَتَكَاثُرٌ فِىۡ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَوۡلَادِ‌ؕ كَمَثَلِ غَيۡثٍ اَعۡجَبَ الۡكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيۡجُ فَتَرٰٮهُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ يَكُوۡنُ حُطٰمًا‌ؕ وَّفِىۡ الۡاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ۙ وَّمَغۡفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانٌ‌ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ‏ (سورۃ الحدید آیت 20)
جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے
اور کفر کی ضد ایمان ہے اور اسے کفر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسے ایمان پر پردہ پوشی کی جاتی ہے (م ل)
قرآن میں ہے :
قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَهُوَ يُحَاوِرُهٗۤ اَكَفَرۡتَ بِالَّذِىۡ خَلَقَكَ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّـطۡفَةٍ ثُمَّ سَوّٰٮكَ رَجُلاًؕ‏ (سورۃ الکہف آیت 37)
تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تم اس ذات سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں پورا آدمی بنایا۔
اور کفر بمعنی احسان فراموشی بھی ہوتا ہے۔ اس معنی میں اس کی ضد شکر ہے۔
وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّكُمۡ لَٮِٕنۡ شَكَرۡتُمۡ لَاَزِيۡدَنَّـكُمۡ‌ وَلَٮِٕنۡ كَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِىۡ لَشَدِيۡدٌ‏ (سورۃ ابراہیم آیت 7)
اور جب تمہارے پروردگار نے تم کو آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھو کہ میرا عذاب بھی سخت ہے۔

ماحصل:

  • ابی: کسی بات کو قبول کرنے سے انکار، اڑ جانا، نہ ماننا، تسلیم نہ کرنا۔
  • جحد: ایسی بات سے انکار جس کا دل میں یقین ہو۔
  • انکر: کسی چیز کو نہ پہچاننے کی وجہ سے انکار۔
  • کفر: حق بات پر پردہ ڈالتے ہوئے انکار کر دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

انگلیاں

کے لیے دو الفاظ اصابع اور انامل آتے ہیں۔

1: اصابع

اصبع کی جمع ہے۔ جس کے معنی انگلی کا ناخن والا پور، خم اور جوڑ کا مجموعہ ہے (مف) قرآن میں ہے:
اَوۡ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِيۡهِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعۡدٌ وَّبَرۡقٌ‌ ۚ يَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَهُمۡ فِىۡٓ اٰذَانِهِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِ‌ؕ وَاللّٰهُ مُحِيۡطٌ‌ۢ بِالۡكٰفِرِيۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 19)
یا انکی مثال مینہ کی سی ہے کہ آسمان سے برس رہا ہو اور اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھا رہا ہو اور بادل گرج رہا ہو اور بجلی کوند رہی ہو تو یہ کڑک سے ڈر کر موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور اللہ کافروں کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔
اور صرف پوروں کے لیے بنان کا لفظ آیا ہے جس کا واحد بنانۃ ہے۔ قرآن میں ہے:
بَلٰى قٰدِرِيۡنَ عَلٰٓى اَنۡ نُّسَوِّىَ بَنَانَهٗ‏ (سورۃ القیامۃ آیت 4)
کیوں نہیں! ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ اُس کی اُنگلیوں کے ایک ایک جوڑ اور پوروں تک کو درست کر دیں

2: انامل

انملۃ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں انگلی کا بالائی حصہ اور اس کی اطراف (مف) قرآن میں ہے:
وَاِذَا خَلَوۡا عَضُّوۡا عَلَيۡكُمُ الۡاَنَامِلَ مِنَ الۡغَيۡظِ‌ؕ قُلۡ مُوۡتُوۡا بِغَيۡظِكُمۡؕ‌ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ (سورۃ آل عمران آیت 119)
اور جب تنہا ہوتے ہیں تو تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں ان سے کہدو کہ اپنے غصے میں مر جاؤ۔ اللہ تمہارے دلوں کی باتوں سے خوب واقف ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اوڑھنا

کے لیے استغشی (غشی) ادّثر (دثر) اور ازّمّل (زمل) کے الفاظ آئے ہیں۔

1: استغشی

غشی کے معنی کسی چیز کا دوسری چیز کو ڈھانپ لینا۔ اور یہ لفظ اوپر سے ڈھانک لینے یا پردہ ڈالنے کے معنی میں آتا ہے (م ل)اور استغشی کے معنی اپنے اوپر کوئی کپڑا اوڑھ لینا اور غواش ہر اوڑھنے والی چیز کو کہتے ہیں۔ جیسے
لَهُمۡ مِّنۡ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنۡ فَوۡقِهِمۡ غَوَاشٍ‌ؕ وَكَذٰلِكَ نَجۡزِىۡ الظّٰلِمِيۡنَ‏ (سورۃ الاعراف آیت 41)
ایسے لوگوں کے لئے نیچے بچھونا بھی آتش جہنم کا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا بھی اسی کا اور ظالموں کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔
قرآن میں ہے:
اَلَاۤ اِنَّهُمۡ يَثۡنُوۡنَ صُدُوۡرَهُمۡ لِيَسۡتَخۡفُوۡا مِنۡهُ‌ؕ اَلَا حِيۡنَ يَسۡتَغۡشُوۡنَ ثِيَابَهُمۡۙ يَعۡلَمُ مَا يُسِرُّوۡنَ وَمَا يُعۡلِنُوۡنَ‌ۚ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ (سورۃ ھود آیت 5)
دیکھو یہ اپنے سینوں کو دہرا کرتے ہیں تاکہ اللہ سے چھپ جائیں۔ سن رکھو جس وقت یہ اپنے کپڑوں میں لپٹ رہے ہوتے ہیں تب بھی وہ انکی چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے۔ وہ تو دلوں کی باتوں تک سے آگاہ ہے۔
اور یہ لفظ جس طرح ظاہری طور پر استعمال ہوتا ہے معنوی لحاظ سے بھی ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے
وَاِنِّىۡ كُلَّمَا دَعَوۡتُهُمۡ لِتَغۡفِرَ لَهُمۡ جَعَلُوۡۤا اَصَابِعَهُمۡ فِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَاسۡتَغۡشَوۡا ثِيَابَهُمۡ وَاَصَرُّوۡا وَاسۡتَكۡبَرُوۡا اسۡتِكۡبَارًا‌ۚ‏ (سورۃ نوح آیت 7)
اور میں نے جب (بھی) اُنہیں (ایمان کی طرف) بلایا تاکہ تو انہیں بخش دے تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیں اور اپنے اوپر اپنے کپڑے لپیٹ لئے اور (کفر پر) ہٹ دھرمی کی اور شدید تکبر کیا

2: ادّثر

الدثار اس گرم چادر یا کمبل کو کہتے ہیں جسے عام لباس کے اوپر اوڑھا جاتا ہے۔ یا سونے والا اوڑھ کر سوتا ہے (منجد) اور ہر وہ کپڑا جو بدن سے ملا ہوا ہو اسے شعار اور جو کپڑا شعار سے ملا ہوا ہو اسے دثار کہتے ہیں (ف ل ۱۹) اور ادّثر بمعنی چادر یا کمبل عام لباس کے اوپر اوڑھ لینا ۔ اور دثور القلب بمعنی کسی کی یاد دل سے محو ہونا اور داثر بمعنی ہالک اور غافل (م ا) گویا ادّثر سے مراد کپڑا اوڑھ کر غفلت کی نیند سونا ہے ۔ ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الۡمُدَّثِّرُۙ‏ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ (سورۃ المدثر آیت 1، 2)
اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!) اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں۔

3: ازّمّل

زمّل بمعنی کپڑے میں لپٹنا۔ کپڑے میں اپنے آپ کو چھپانا اور مزّمّل بمعنی کپڑوں میں لپٹا ہوا اور ازمل اور زمیل بمعنی کمزور، بزدل، ڈرپوک (منجد) اور زمّل بمعنی ضعیف ترسیدہ، بد دل (م ا) گویا مزمل اس کپڑا اوڑھنے والے کو کہتے ہیں جو کسی کمزوری، ڈر یا بد دلی کی وجہ سے کپڑا اوڑھ کر لیٹ جائے۔ ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الۡمُزَّمِّلُۙ‏ قُمِ الَّيۡلَ اِلَّا قَلِيۡلاًۙ‏ (سورۃ مزمل آیت 1، 2)
اے کملی کی جھرمٹ والے (حبیب!) آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لئے)​

ماحصل:

  • استغشی کسی حالت میں کوئی بھی کپڑا اوڑھنا یا اپنے گرد لپیٹنا عام ہے۔
  • ادّثّر: کپڑا اوڑھ کر غفلت کی نیند سونا یا گہری نیند لینے کی نیت سے کپڑا لپیٹنا۔
  • ازّمّل: کسی ڈر، کمزوری یا بد دلی کی وجہ سے کپڑا اوڑھنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اولاد

کے لیے اولاد ، ذُرِّيَّة (ذرر) اسباط، عقب، نسل، حفدة ، أھل اور آل کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اولاد

ولد بمعنی جنا ہوا بچہ اور اولاد اس کی جمع ہے۔ اس لفظ کا اطلاق عموماً بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں اور پھر نیچے تک ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے :
يُوۡصِيۡكُمُ اللّٰهُ فِىۡۤ اَوۡلَادِكُمۡ‌ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَيَيۡنِ (سورۃ النساء آیت 11)
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے

2: اسباط

سبط کے معنی اولاد کی اولاد کے ہیں (یعنی دوسری نسل) مگر یہ لفظ زیادہ تر نواسوں کے لیے مخصوص ہے۔ جس طرح پوتے کے لیے حفید یا حفدة ہے (منجد) اور اسباط کے معنی لڑکیوں کی اولاد یعنی نواسے نواسی اور پھر آگے تک ۔نیز اسباط عموماً حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد کے لیے استعمال ہوتا ہے (مف - منجد) ارشاد باری ہے:
اَمۡ تَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطَ كَانُوۡا هُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰى‌ؕ قُلۡ ءَاَنۡتُمۡ اَعۡلَمُ اَمِ اللّٰهُ‌ ؕ وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ كَتَمَ شَهَادَةً عِنۡدَهٗ مِنَ اللّٰهِ‌ؕ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 140)
اے یہود و نصارٰی کیا تم اس بات کے قائل ہو کہ ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھے اے پیغمبر ان سے کہو کہ بھلا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب میں موجود ہے چھپائے اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو اللہ اس سے غافل نہیں۔

3: ذريّة

بعض اہل لغت اسے ذرّ سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی ہیں چھوٹی چیونٹیاں (منجد) اور ذرة اس کا واحد ہے اور ذریہ چھوٹی اولاد کو کہتے ہیں (مف) جیسا کہ قرآن میں ہے
اَيَوَدُّ اَحَدُكُمۡ اَنۡ تَكُوۡنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنۡ نَّخِيۡلٍ وَّاَعۡنَابٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُۙ لَهٗ فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِۙ وَاَصَابَهُ الۡكِبَرُ وَلَهٗ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَآءُ ۖۚ فَاَصَابَهَاۤ اِعۡصَارٌ فِيۡهِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ‌ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 266)
بھلا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہ رہی ہوں اور اس میں اس کے لئے ہر قسم کے میوے موجود ہوں اور اسے بڑھاپا آ پکڑے اور اس کے ننّھے ننّھے بچے بھی ہوں تو ناگہاں اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے پس وہ جل جائے اس طرح اللہ تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تا کہ تم سوچو اور سمجھو۔
پھر اس لفظ کا اطلاق سب اولاد پر ہونے لگا اور بعض اسے ذرا سے مشتق قرار دیتے ہیں۔ ذرا الارض کے معنی زمین میں کچھ بونا (منجد) اور ابن فارس کے نزدیک ہر وہ چیز جو بوئی اور کھیتی کی جا سکے (م ل) اور یہ لفظ اولاد سے عام ہے۔ اس میں بیٹے، بیٹیاں ، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں سب شامل ہیں۔ (ف ل ۲۰۶) ارشاد باری ہے:
وَاِذِ ابۡتَلٰٓى اِبۡرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ‌ؕ قَالَ اِنِّىۡ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا‌ؕ قَالَ وَمِنۡ ذُرِّيَّتِىۡ‌ؕ قَالَ لَا يَنَالُ عَهۡدِىۡ الظّٰلِمِيۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 124)
اور جب ابراہیم کی اسکے پروردگار نے چند باتوں میں آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے۔ فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ پروردگار میری اولاد میں سے بھی پیشوا بنائیو فرمایا کہ میرا قول و قرار ظالموں کے لئے نہیں ہوا کرتا۔

4: عقب

عقب بمعنی ایڑی۔ بیٹا۔ پوتا اور عقب کے معنی پیچھے چلنا اور اعقب کے معنی جانشین ہونا ہے (منجد) اور عقب کا اطلاق انسان کے مرنے کے بعد اپنی پیچھے چھوڑی ہوئی اولاد پر ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِىۡ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ‏ (سورۃ الزخرف آیت 28)
اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اس (کلمۂ توحید) کو اپنی نسل و ذریّت میں باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا تاکہ وہ (اللہ کی طرف) رجوع کرتے رہیں

5: نسل

نسل کے لغوی معنی تیز دوڑنا یا بلندی سے پستی کی طرف دوڑنا کے ہیں (منجد) جیسا کہ قران کریم میں آیا ہے :
حَتّٰٓى اِذَا فُتِحَتۡ يَاۡجُوۡجُ وَمَاۡجُوۡجُ وَهُمۡ مِّنۡ كُلِّ حَدَبٍ يَّنۡسِلُوۡنَ‏ (سورۃ الانبیاء آیت 96)
یہاں تک کہ جب یاجوج اور ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے اتر آئیں گے
اور اس کا دوسرا معنی کسی جاندار کے جسم سے کوئی چیز جدا ہونا ہے اور نسالہ داڑھی سے گرے ہوئے بالوں کو کہتے ہیں یا پرندوں کے ان پروں کو جو جھڑ کر گر جاتے ہیں اور چونکہ اولاد بھی ماں باپ کے حجم کا حصہ ہوتا ہے جو ان سے جدا ہوتی ہے۔ لہذا اولاد کو نسل سے تعبیر کرتے ہیں (مف) ابن الفارس نے بھی یہی دو معنی بیان کیے ہیں (م ل) ۔
نسل سے مراد کی مخصوص انسان کی تمام تر پشتیں ہوتی ہیں۔ گویا یہ لفظ اولاد اور ذریت وغیرہ سب سے عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِىۡۤ اَحۡسَنَ كُلَّ شَىۡءٍ خَلَقَهٗ‌ وَبَدَاَ خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِيۡنٍ‌ۚ‏ ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَهٗ مِنۡ سُلٰلَةٍ مِّنۡ مَّآءٍ مَّهِيۡنٍ‌ۚ‏ (سورۃ السجدۃ آیت 7، 8)
وہی جس نے ہرچیز کو بہت اچھی طرح بنایا یعنی اسکو پیدا کیا۔ اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا۔پھر اسکی نسل ایک قسم کے خلاصے سے یعنی حقیر پانی سے بنائی۔

6: حفدة

حفد بمعنی کام کرنے میں پھرتی دکھانا (مف منجد) دعائے قنوت کے الفاظ واليك نسعى ونحفد سے یہی مراد ہے اور حافد بمعنی تبرعا تیزی کے ساتھ خدمت بجا لانے والا خواہ یہ اجنبی ہو یا رشتہ دار (مف) اور حافد اور حفیدۃ دونوں کے معنی پوتا بھی ہیں (مف - منجد) اور حافد کی جمع حفدة ہے۔ امام راغب کے نزدیک حفدة کا اطلاق سسر اور اولاد دونوں طرف کے رشتہ داروں پر ہوتا ہے (اناث اس میں شامل نہیں) ارشاد باری ہے:
وَاللّٰهُ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ بَنِيۡنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ‌ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ يُؤۡمِنُوۡنَ وَبِنِعۡمَتِ اللّٰهِ هُمۡ يَكۡفُرُوۡنَۙ‏ (سورۃ النحل آیت 72)
اور اللہ ہی نے تم میں سے تمہارے لئے بیویاں پیدا کیں اور بیویوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور کھانے کو تمہیں پاکیزہ چیزیں دیں تو کیا یہ لوگ باطل پر اعتقاد رکھتے اور اللہ کی نعمتوں سے انکار کرتے ہیں؟

7، 8: آل اور اھل

بعض اہل لغت کے نزدیک یہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں اور رشتہ دار یا خاندان کے معنوں میں آتے ہیں۔ مگر ان دونوں لفظوں میں کئی فرق ہیں مثلاً:
1: اهل کا دائرہ اس لحاظ سے محدود ہے کہ اس میں صرف گھر والے یعنی بیوی بچے شامل ہوتے ہیں جبکہ آل میں ذہنی یگانگت رکھنے والے بھی شامل ہوتے ہیں مثلاً اھل فرعون سے صرف اس کے گھر والے اور ال فرعون سے گھر والوں کے علاوہ اس کے اہل کار اور اس سے متفق تمام لوگ شامل ہیں۔ اسی طرح ال النبی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں کے علاوہ امت کے وہ لوگ بھی شامل ہیں ، جنہیں علم و معرفت کے لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی تعلق ہو۔
2: اور اھل کا دائرہ آل سے اس لحاظ سے وسیع ہے کہ یہ غیر زوی العقول کی طرف بھی مضاف ہو سکتا ہے۔ مثلاً اهل البلد (شہر والے)، یا اھل الارض تو کہا جا سکتا ہے مگر آل البلد یا آل الارض نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح اھل المدینہ، اھل الذكر، اھل الکتاب اور اھل النار کی بھی صورت ہے۔
3: ال کا لفظ صرف کسی معروف ہستی کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ مثلاً آل ابراہیم یا آل عمران تو کہ سکتے ہیں مگر آل الخیاط نہیں کہ سکتے۔ ہاں اھل الخیاط کہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں درزی کے گھر والے اس کا معنی ہو گا۔

ماحصل:

  • اولاد: بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں اور آگے تک۔
  • اسباط: نواسے، نواسیاں اور آگے تک۔
  • ذریت: اس میں پوتے نواسے سب شامل ہیں۔
  • مرنے کے بعد کسی کی اولاد کو عقب کہہ سکتے ہیں اس کی زندگی میں نہیں۔
  • نسل: کسی شخص کی تمام نچلی پشتیں اس کی نسل ہیں۔
  • حفدۃ: پوتے (صرف ذکور) اور بعض کے نزدیک سسرال والے بھی۔
  • اھل: گھر والے، بیوی سمیت، اولاد اور اہل خاندان۔
  • آل: رشتہ دار کے علاوہ ذہنی یگانگت رکھنے والے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اون

کے لیے دو الفاظ آئے ہیں۔ صوف اور عھن۔

1: صوف

بھیڑ اور مینڈھے وغیرہ کے جسم سے اتاری ہوئی اون کو صوف کہتے ہیں۔(ف ل 30) ارشاد باری ہے
وَاللّٰهُ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡۢ بُيُوۡتِكُمۡ سَكَنًا وَّجَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ جُلُوۡدِ الۡاَنۡعَامِ بُيُوۡتًا تَسۡتَخِفُّوۡنَهَا يَوۡمَ ظَعۡنِكُمۡ وَيَوۡمَ اِقَامَتِكُمۡ‌ۙ وَمِنۡ اَصۡوَافِهَا وَاَوۡبَارِهَا وَاَشۡعَارِهَاۤ اَثٰثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيۡنٍ‏ (سورۃ النحل آیت 80)
اور اللہ ہی نے تمہارے لئے گھروں کو رہنے کی جگہ بنایا اور اسی نے چوپایوں کی کھالوں سے تمہارے لئے ڈیرے بنائے جنکو تم ہلکا پھلکا دیکھ کر سفر اور حضر میں کام میں لاتے ہو اور انکی اون اور پشم اور بالوں سے تم اسباب اور برتنے کی چیزیں بناتے ہو جو مدت تک کام دیتی ہیں۔

2: عھن

اور جب یہ اون رنگ دی جائے تو عھن ہے۔ رنگی ہوئی اون۔ قرآن میں ہے
يَوۡمَ تَكُوۡنُ السَّمَآءُ كَالۡمُهۡلِۙ‏ وَتَكُوۡنُ الۡجِبَالُ كَالۡعِهۡنِۙ‏ (سورۃ المعارج آیت 8، 9)
جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو جائے گا اور پہاڑ (دُھنکی ہوئی) رنگین اُون کی طرح ہو جائیں گے)
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اونٹ

کے لیے ابل، بعیر، جمل، ھیم، ركاب، ناقة، ضامِر، عشار، بدن ، بحيرة، وصيلة ، سائبہ اور حام کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ابل

اسم جنس ہے۔ ہر قسم کے اونٹ اور نر و مادہ سب کے لیے مستعمل ہے۔ اس کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا۔ اور اس لفظ سے اونٹوں کا گلہ بھی مراد لیا جاتا ہے (مف) ارشاد باری ہے:
اَفَلَا يَنۡظُرُوۡنَ اِلَى الۡاِبِلِ كَيۡفَ خُلِقَتۡ (سورۃ الغاشیۃ آیت 17)
(منکرین تعجب کرتے ہیں کہ جنت میں یہ سب کچھ کیسے بن جائے گا! تو) کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح (عجیب ساخت پر) بنایا گیا ہے‏

2: بعیر

اسم جنس ہے اور نر و مادہ سب پر استعمال ہوتا ہے۔ جب اونٹ چار سال کا بار برداری کے قابل ہو جائے تو بعیر ہوتا ہے۔ نوجوان اور طاقت ور اونٹ (مف فل ۲۷) قرآن میں ہے
قَالُوۡا نَفۡقِدُ صُوَاعَ الۡمَلِكِ وَلِمَنۡ جَآءَ بِهٖ حِمۡلُ بَعِيۡرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيۡمٌ‏ (سورۃ یوسف آیت 72)
وہ بولے کہ بادشاہ کا کٹورہ کھویا گیا ہے اور جو شخص اسکو لے کے آئے اسکے لئے ایک بار شتر انعام اور میں اسکا ضامن ہوں۔

3: جمل

پانچ سال سے زائد عمر کا نر اونٹ۔ خوبصورت اونٹ (ف ل ۲۷) اس کی جمع جمالۃ آتی ہے۔ قرآن میں ہے :
اِنَّهَا تَرۡمِىۡ بِشَرَرٍ كَالۡقَصۡرِ‌ۚ‏ كَاَنَّهٗ جِمٰلَتٌ صُفۡرٌؕ‏ (سورۃ المرسلات 32، 33)
بیشک وہ (دوزخ) اونچے محل کی طرح (بڑے بڑے) شعلے اور چنگاریاں اڑاتی ہے (یوں بھی لگتا ہے) گویا وہ (چنگاریاں) زرد رنگ والے اونٹ ہیں

4: ھیم

ھام دو معنی میں استعمال ہوتا ہے عاشقانہ اور مجنوناہ کیفیت سے آوارہ پھرنا اور سخت پیاسا ہونا۔ یہاں دوسرا معنی زیر بحث ہے اور ھیام اونٹوں کی ایک بیماری ہے جس میں اسے اتنی پیاس لگتی ہے کہ وہ سیر نہیں ہوتا (منجد) اور ھیم ایسے اونٹ کو کہتے ہیں جو سخت پیاسا ہو۔ ارشاد باری ہے
فَشٰرِبُوۡنَ عَلَيۡهِ مِنَ الۡحَمِيۡمِ‌ۚ‏ فَشٰرِبُوۡنَ شُرۡبَ الۡهِيۡمِؕ‏ (سورۃ الواقعہ آیت 54، 55)
پھر اُس پر سخت کھولتا پانی پینے والے ہو پس تم سخت پیاسے اونٹ کے پینے کی طرح پینے والے ہو

5: رکاب

رکب کے معنی سوار ہونا اور رکاب کسی سوار کے سوار ہونے کے وقت پاؤں رکھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ (ہمارے ہاں رکاب انہی معنوں میں مستعمل ہے) ، پھر یہ لفظ ہر سوار اور سواری کے لیے استعمال ہونے لگا۔ (منجد ) عرف عام میں راکب کا لفظ صرف شتر سوار کے لیے مخصوص ہے اور اس کی جمع رکبان ، رکب اور رکوب آتی ہے (مف) اور رکاب کا لفظ اونٹوں کے گلہ پر بھی بولا جاتا ہے۔ جس طرح خیل کا لفظ گھوڑوں کے گلہ پر بولا جاتا ہے۔ قرآن میں ہے :
وَمَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ مِنۡهُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَيۡهِ مِنۡ خَيۡلٍ وَّلَا رِكَابٍ وَّلٰڪِنَّ اللّٰهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ (سورۃ الحشر آیت 6)
اور جو (اَموالِ فَے) اللہ نے اُن سے (نکال کر) اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لَوٹا دیئے تو تم نے نہ تو اُن (کے حصول) پر گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ اونٹ، ہاں! اللہ اپنے رسولوں کو جِس پر چاہتا ہے غلبہ و تسلّط عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے

6: ضامر

ضمر بمعنی ہموار شکم، باریک اور لطیف جسم والا۔ اور ضامر ہر وہ سواری (گھوڑا یا اونٹ) ہے جو کہ ریاضیت کی وجہ سے تنک جسم ہو، خوراک کی کمی کی وجہ سے نہ ہو، اور مضمار اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں ان جانوروں کو ریاضت کی مشق کرائی جاتی ہے (م ا) گویا ضامر بمعنی چھریرے بدن والے ، سبک رفتار گھوڑے یا اونٹ خواہ نر ہو یا مادہ اور عرب میں چونکہ اونٹ کی سواری عام ہے اس لیے اس کا اطلاق بیشتر اس قسم کے اونٹ پر ہی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَاَذِّنۡ فِىۡ النَّاسِ بِالۡحَجِّ يَاۡتُوۡكَ رِجَالاً وَّعَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ يَّاۡتِيۡنَ مِنۡ كُلِّ فَجٍّ عَمِيۡقٍۙ‏ (سورۃ الحج آیت 27)
اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو وہ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہو جائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیں

7: بدن

بدنۃ کی جمع ہے اور بدنۃ وہ اونٹ یا گائے ہے جو کہ مکہ کو بھیجی جائے (م ا) یا جو مکہ معظمہ لے جا کر ذبح کی جائے (منجد مف) اور بدنۃ بدن کی مناسب سے ان دونوں جانوروں کے جسیم ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ اور عرف عام میں اس سے صرف قربانی کا اونٹ مراد ہے جو مکہ لے جا کر ذبح کیا جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَالۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰهَا لَـكُمۡ مِّنۡ شَعَآٮِٕرِ اللّٰهِ لَـكُمۡ فِيۡهَا خَيۡرٌ‌ ‌ۖ فَاذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلَيۡهَا صَوَآفَّ‌ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُهَا فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوۡا الۡقَانِعَ وَالۡمُعۡتَرَّ‌ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرۡنٰهَا لَـكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ (سورۃ الحج آیت 36)
اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لئے اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے پس تم (انہیں) قطار میں کھڑا کر کے (نیزہ مار کر نحر کے وقت) ان پر اﷲ کا نام لو، پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی) کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر بجا لاؤ
اور شعائر اللہ سے مراد وہ ادب کی چیزیں ہیں جو اللہ کے نام نامزدکی جاتی ہیں۔

8: ناقة

(نوق) اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو جفتی کے قابل ہو چکی ہو(ف ل 17) قرآن میں ہے :
وَيٰقَوۡمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَـكُمۡ اٰيَةً فَذَرُوۡهَا تَاۡكُلۡ فِىۡۤ اَرۡضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوۡهَا بِسُوۡٓءٍ فَيَاۡخُذَكُمۡ عَذَابٌ قَرِيۡبٌ‏ (سورۃ ھود آیت 64)
اور یہ بھی کہا کہ اے قوم! یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے ایک نشانی یعنی معجزہ ہے۔ تو اسکو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں جہاں چاہے چرتی پھرے اور اسکو کسی طرح کی تکلیف نہ دینا ورنہ تمہیں جلد عذاب آ پکڑے گا۔

9: عشار

عشراء کی جمع ہے اور عشر بمعنی دس سے مشتق ہے۔ عشراء ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں جسے حاملہ ہوئے دس ماہ گزر چکے ہوں (م ا) اور ایسی اونٹنی بہت پیاری سمجھی جاتی تھی کہ اب بہت جلد بچہ دینے والی ہے۔ قرآن میں ہے
وَاِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ (سورۃ التکویر آیت 4)
اور جب حاملہ اونٹنیاں بے کار چھوٹی پھریں گی (کوئی ان کا خبر گیر نہ ہوگا)

10: بحيرة

جب کوئی اونٹنی یا بکری دس بچے جن چکتی تو اسے اہل عرب بتوں کی قربانی کے لیے وقف کر دیتے اور علامت کے لیے اس کے کان چیر دیتے اور اسے آزاد کھلا چھوڑ دیتے اور اس کا کوئی دودھ بھی نہیں دوہ سکتا تھا اور اس کے مرنے پر اس کا گوشت مردوں کے لیے حلال لیکن عورتوں پر حرام سمجھا جاتا تھا۔

11: سائبة

(سیب) بحيرة کے مقابلہ میں سائبہ وہ سانڈ قسم کا اونٹ ہے جو پانچ بچے جنم دینے کے بعد آزاد چھوڑ دیا گیا ہو۔ اور اسے پانی اور چارہ کی کہیں بھی رکاوٹ نہ ہو۔ یہ بھی بتوں کے نام قربانی ہوتی تھی۔ اور اس پر کوئی بوجھ نہ لا سکتا تھا۔

12: وصیلہ

وہ بکری جو دو دو بچے دینے کے بعد ساتویں بطن میں ایک نر اور ایک مادہ بچہ دے، جاہلیت میں اس مادہ کی وجہ سے اس نر بچہ کو بھی ذبح نہ کرتے تھے (مف) یہ بھی بتوں پر قربانی کیا جاتا۔

13: حام

(حوم) ایسا اونٹ جس سے کم از کم دس بچے پیدا ہو چکے ہوں۔ یہ بھی آزاد چھوڑا اور بتوں کی نذر کیا جاتا تھا۔
اب ایسی قربانیوں کے متعلق ارشاد باری ملاحظہ فرمائیے:
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنۡۢ بَحِيۡرَةٍ وَّلَا سَآٮِٕبَةٍ وَّلَا وَصِيۡلَةٍ وَّلَا حَامٍ‌ۙ وَلٰـكِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يَفۡتَرُوۡنَ عَلَى اللّٰهِ الۡـكَذِبَ‌ؕ وَاَكۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡقِلُوۡنَ‏ (سورۃ المائدۃ آیت 103)
اللہ نے نہ تو کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے اور نہ کوئی سائبہ اور نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حامی لیکن کافر اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ اور یہ اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔

ماحصل:

  • ابل: اسم جنس ہر قسم کے اونٹ پر اور نر و مادہ کے لیے۔
  • بعیر: اسم جنس۔ چار سال کا بار بردار اونٹ نر و مادہ دونوں کے لیے۔
  • جمل: پانچ سال سے زائد عمر کا نر اور خوبصورت اونٹ۔
  • ضامر: چھریرے بدن کا سبک رفتار اونٹ نر ہو یا مادہ۔
  • رکاب: سواری کے قابل اونٹوں کا گلہ۔
  • ھیم: سخت پیاسا اونٹ۔
  • ناقۃ: ایسی اونٹنی جو جفتی کے قابل ہو چکی ہو۔
  • عشار: دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں۔
  • بدن: قربانی کے اونٹ جو حرم کعبہ میں لے جا کر ذبح کیے جائیں۔
  • بحریۃ، سائبۃ، وصیلۃ اور حام: جاہلیت میں مختلف شرطوں کے تحت بتوں کی نذر و نیاز اور قربانی کے جانور۔
اونچا کرنا: دیکھیے بلند کرنا۔
اوندھا کرنا: دیکھیے الٹ دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اونگھ

کے لیے قرآن کریم میں دو الفاظ ہیں۔ نعاس اور سنۃ کے (وسن)

1: نعاس

(نعس) یہ نیند کی ابتدائی کیفیت ہے (ف ل 34) بمعنی غنودگی۔ جب نیند کی وجہ سے حواس سست پڑ جائیں اور آنکھوں پر اس کا اثر نمایاں ہونے لگے تو اسے نعاس کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
اِذۡ يُغَشِّيۡكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنۡهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيۡكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّيُطَهِّرَكُمۡ بِهٖ وَيُذۡهِبَ عَنۡكُمۡ رِجۡزَ الشَّيۡطٰنِ وَلِيَرۡبِطَ عَلٰى قُلُوۡبِكُمۡ وَيُثَبِّتَ بِهِ الۡاَقۡدَامَؕ‏ (سورۃ الانفال آیت 11)
جب اس نے تمہاری تسکین کے لئے اپنی طرف سے تمہیں نیند کی چادر اوڑھا دی اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیا تاکہ تم کو اس سے نہلا کر پاک کر دے۔ اور شیطانی نجاست کو تم سے دور کر دے اور اس لئے بھی کہ تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے۔

2: سنۃ

(وسن) اونگھ، ایسی غنودگی جس سے سر میں گرانی محسوس ہونے لگے اور سر جھکنے لگے۔ غنودگی کا اگلا درجہ، غنودگی اور نیند کی درمیانی کیفیت (ف ل 161) ارشاد باری ہے:
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الۡحَـىُّ الۡقَيُّوۡمُۚلَا تَاۡخُذُهٗ سِنَةٌ وَّلَا نَوۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت255)
خدا وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہے سب کو تھامنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

ایندھن

کے لیے حطب، حصب اور وقود کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حطب

نباتاتی ایندھن، ناکارہ صرف جلانے کے قابل لکڑی، جھاڑ جھنکار (پنجابی بالن) قرآن میں ہے:
وَّامۡرَاَتُهٗؕ حَمَّالَةَ الۡحَطَبِ‌ۚ‏ (سورۃ اللہب آیت 4)
اور اس کی (خبیث) عورت (بھی) جو (کانٹے دار) لکڑیوں کا بوجھ (سر پر) اٹھائے پھرتی ہے، (اور ہمارے حبیب کے تلووں کو زخمی کرنے کے لئے رات کو ان کی راہوں میں بچھا دیتی ہے)
اور جو لکڑی کارآمد ہو اسے خشب کہا جاتا ہے۔

2: حصب

حصب کے معنی پتھر، چھوٹی پتھریاں، کنکر وغیرہ اور حاصب اس تند و تیز ہوا کو کہتے ہیں جو کنکروں اور چھوٹے پتھروں کو اٹھائے پھرتی ہے (منجد) چنانچہ یہ لفظ قرآن کریم میں پتھروں کی بارش کے معنی میں استعمال ہوا ہے
اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِىۡ السَّمَآءِ اَنۡ يُّرۡسِلَ عَلَيۡكُمۡ حَاصِبًا‌ؕ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ كَيۡفَ نَذِيۡرِ‏ (سورۃ الملک آیت 17)
کیا تم آسمان والے (رب) سے بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ تم پر پتھر برسانے والی ہوا بھیج دے؟ سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے
اور حصب کے معنی ایندھن بھی ہے (منجد) اور اس سے مراد جماداتی ایندھن ہے۔ مثلاً گندھک، پوٹاش اور دوسرے آتش گیر مادے۔ اور پتھر وغیرہ غرضیکہ ہر وہ چیز جو آگ کو بھڑکا دے وہ حصب ہے (ف ل 16) ارشاد باری ہے:
اِنَّكُمۡ وَمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَـنَّمَؕ اَنۡـتُمۡ لَهَا وَارِدُوۡنَ‏ (سورۃ الانبیاء آیت 98)
بیشک تم اور وہ (بت) جن کی تم اﷲ کے سوا پرستش کرتے تھے (سب) دوزخ کا ایندھن ہیں، تم اس میں داخل ہونے والے ہو

3: وقود

وقد بمعنی آگ روشن کرنا اور وقود ہر وہ ایندھن ہے جو شعلہ پیدا کر کے جلے (ف ل 31) خواہ وہ لکڑیاں ہو یا پتھر یا انسان۔ بعض دفعہ آگ کی تیز اس انتہا کو پہنچ جاتی ہے کہ پانی بھی اسے بجھانے کی بجائے اس کے مزید بھڑکنے کا سبب بن جاتا ہے۔ تو اس صورت میں پانی بھی وقود میں شامل ہو گا۔ کوئی بھی ایندھن کی قسم ہو جب وہ جل رہ ہو تو اس وقت وقود کہلائے گا پہلے نہیں۔
اسی لیے فرمایا:
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَلَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوۡا النَّارَ الَّتِىۡ وَقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ ۖۚ اُعِدَّتۡ لِلۡكٰفِرِيۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 24)
پھر اگر ایسا نہ کر سکو اور ہر گز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہونگے اور جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

ماحصل:

  • حطب: نباتاتی ایندھن، ناکارہ لکڑیاں، بالن۔
  • حصب: جماداتی اور معدنیاتی ایندھن۔
  • وقود: جلتے ہوئے ایندھن کو خواہ کسی قسم کا ہو وقود کہتے ہیں۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

اے (حرف ندا)

کے لیے قرآن میں یا، ایّہ، اور یایّھا کے الفاظ آئے ہیں۔
یا کا استعمال عام ہے۔ اسم نکرہ اور معرفہ سب پر داخل ہو سکتا ہے جیسے
يٰبَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَتِىَ الَّتِىۡٓ اَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ (سورۃ البقرۃ آیت 40)
اے آل یعقوب! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کیے تھے۔
اور
يٰمَرۡيَمُ اقۡنُتِىۡ لِرَبِّكِ وَاسۡجُدِىۡ وَارۡكَعِىۡ مَعَ الرّٰكِعِيۡنَ‏ (سورۃ آل عمران آیت 43)
اے مریم اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا اور سجدہ کرنا اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنا۔
لیکن جب اسم نکرہ پر ا ل معرفہ کا داخل ہو تو ایّہ یا ایّھا استعمال ہو گا۔ جیسے:
سَنَفۡرُغُ لَكُمۡ اَيُّهَ الثَّقَلٰنِ‌ۚ‏ (سورۃ الرحمن آیت 31)
اے ہر دو گروہانِ (اِنس و جِن!) ہم عنقریب تمہارے حساب کی طرف متوّجہ ہوتے ہیں
اور
قُلۡ اَفَغَيۡرَ اللّٰهِ تَاۡمُرُوۡٓنِّىۡۤ اَعۡبُدُ اَيُّهَا الۡجٰـهِلُوۡنَ‏ (سورۃ الزمر آیت 64)
فرما دیجئے: اے جاہلو! کیا تم مجھے غیر اللہ کی پرستش کرنے کا کہتے ہو
مؤنث کے لیے ایّتھا آتا ہے۔ جیسے
اَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اَيَّتُهَا الۡعِيۡرُ اِنَّكُمۡ لَسَارِقُوۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 70)
ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ قافلے والو! تم تو چور ہو۔
اور کبھی کلام میں زور پیدا کرنے اور تحسین کلام کے لیے یا اور ایّھا کو ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نکرہ معرف باللام پر ہی داخل ہو گا جیسے فرمایا:
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَـكَ (سورۃ الاحزاب آیت 50)
اے نبی! بیشک ہم نے آپ کے لئے حلال فرما دی ہیں
اور
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ وَالَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ (سورۃ البقرۃ آیت 21)
لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم اسکے عذاب سے بچو۔
پھر جس طرح یہ الفاظ نکرہ معرف باللام پر داخل ہوتے ہیں اسمائے موصولہ الذی، الذین وغیرہ پر بھی داخل ہوتے ہیں۔ جیسے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا (سورۃ المائدۃ آیت 90)
اے ایمان والو!​
اور مؤنث کے یایتھا آئے گا، جیسے فرمایا:
يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَٮِٕنَّةُ ۖ‏ (سورۃ الفجر آیت 27)
اے اطمینان پا جانے والے نفس​
یاد رہے کہ (1) منادی کے واحد، تثنیہ، جمع ہونے کا حرف ندا پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (2) اللہ سے پہلے یا کا استعمال ترکیب موضوعہ اور غیر عرب کی پیداوار ہے۔ جیسے یا اللہ کہنا۔ قرآن و حدیث میں اے اللہ کے لیے اللھم کا لفظ آتا ہے۔
 
Top