مترادفات القرآن (ب)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بچانا

کے لیے وقی، منع، حجر، احصن، جنب اور عصم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: وقی

وقی کے معنی برے کاموں کے انجام سے ڈرا کر ان برے کاموں اوران کی عقوبت سے بچانا ہے(مف) ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ عَلَيۡهَا مَلٰٓٮِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعۡصُوۡنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمۡ وَيَفۡعَلُوۡنَ مَا يُؤۡمَرُوۡنَ‏ (سورۃ التحریم آیت 6)
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت مزاج طاقتور فرشتے (مقرر) ہیں جو کسی بھی امر میں جس کا وہ انہیں حکم دیتا ہے اﷲ کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام انجام دیتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے

2: منع

کے معنی روکنا اور اس کی ضد الاعطاء یعنی کسی کو کچھ دے دینا ہے (م ل) روک کھڑی کر دینا یا رکاوٹ بن کر کسی مصیبت یا آفت سے بچانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ قرآن میں ہے:
هُوَ الَّذِىۡۤ اَخۡرَجَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ مِنۡ دِيَارِهِمۡ لِاَوَّلِ الۡحَشۡرِ‌ؔؕ مَا ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ يَّخۡرُجُوۡا‌ وَظَنُّوۡۤا اَنَّهُمۡ مَّانِعَتُهُمۡ حُصُوۡنُهُمۡ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ حَيۡثُ لَمۡ يَحۡتَسِبُوۡا وَقَذَفَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الرُّعۡبَ يُخۡرِبُوۡنَ بُيُوۡتَهُمۡ بِاَيۡدِيۡهِمۡ وَاَيۡدِىۡ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ فَاعۡتَبِرُوۡا يٰۤاُولِىۡ الۡاَبۡصَارِ‌‏ (سورۃ الحشر آیت 2)
وہی ہے جس نے اُن کافر کتابیوں کو (یعنی بنو نضیر کو) پہلی جلاوطنی میں گھروں سے (جمع کر کے مدینہ سے شام کی طرف) نکال دیا۔ تمہیں یہ گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور انہیں یہ گمان تھا کہ اُن کے مضبوط قلعے انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچا لیں گے پھر اللہ (کے عذاب) نے اُن کو وہاں سے آلیا جہاں سے وہ گمان (بھی) نہ کرسکتے تھے اور اس (اللہ) نے اُن کے دلوں میں رعب و دبدبہ ڈال دیا وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور اہلِ ایمان کے ہاتھوں ویران کر رہے تھے۔ پس اے دیدۂ بینا والو! (اس سے) عبرت حاصل کرو

3: حجز

حجز اصل میں دو چیزوں کے درمیان ایک تیسری چیز ہوتی ہے جو درمیان میں حائل ہو کر آڑ کا کام دے دیتی ہے (م ۔ل) اور حجز بمعنی آڑ بن کر ایک چیز کو دوسری سے بچا لینا ارشاد باری ہے:
فَمَا مِنۡكُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡهُ حَاجِزِيۡنَ‏ (سورۃ الحاقۃ آیت 47)
پھر تم میں سے کوئی بھی (ہمیں) اِس سے روکنے والا نہ ہوتا

4: أَحْصَنَ

حَصن کے معنی قلعہ یا پناہ گاہ کے ہیں۔ ابن الفارس کے نزدیک اس کے معنی میں تین باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ حفاظت (۲) احاطہ (۳) پناہ (م ل) لہذا احصن میں بھی یہی باتیں پائی جائیں گی۔ یعنی روکنا۔ بچانا اور پوری طرح نگہداشت کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَمَرۡيَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِىۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا فَنَفَخۡنَا فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَصَدَّقَتۡ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِيۡنَ (سورۃ التحریم آیت 12)
اور (دوسری مثال) عمران کی بیٹی مریم کی (بیان فرمائی ہے) جس نے اپنی عصمت و عفّت کی خوب حفاظت کی تو ہم نے (اس کے) گریبان میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے فرامین اور اس کی (نازل کردہ) کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزاروں میں سے تھی‏

5: جنب

جنب کے بنیادی دو معنی ہیں (۱) پہلو (۲) دور کر دینا (م ل) اور جنب کے معنی کسی کو دور کر کے علیحدہ لے جا کر کسی مصیبت یا آفت سے بچا لینا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پروردگار کے حضور دعا فرمائی:
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهِيۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجۡنُبۡنِىۡ وَبَنِىَّ اَنۡ نَّـعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَؕ‏ (سورۃ ابراہیم آیت 35)
اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار اس شہر کو لوگوں کے لئے امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھیو۔

6: عصم

کسی چیز کو اپنے پاس روک کر یا اپنی حفاظت میں لے کر اسے کسی ایسی آفت سے بچانا جس میں وہ جا پڑنے والا ہو ۔ (م ل) ابن فارس کے اپنے الفاظ میں ع- ص م – کلمۃ تدل علی الامساک والمنع والملازمۃ من سوء ما یقع فیہ (م - ل) ارشاد باری ہے:
یٰۤاَيُّهَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ‌ؕ وَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسٰلَـتَهٗ‌ؕ وَاللّٰهُ يَعۡصِمُكَ مِنَ النَّاسِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِىۡ الۡقَوۡمَ الۡـكٰفِرِيۡنَ‏ (سورۃ المائدۃ آیت 67)
اے پیغمبر جو ارشادات اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو۔ اور اگر ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے اور اللہ تم کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔ بیشک اللہ منکروں کو ہدایت نہیں کرتا۔
ایک دوسرے مقام پر حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا حضرت نوح علیہ السلام کو یوں جواب دیتا ہے:
قَالَ سَاَاوِىۡۤ اِلٰى جَبَلٍ يَّعۡصِمُنِىۡ مِنَ الۡمَآءِ‌ؕ قَالَ لَا عَاصِمَ الۡيَوۡمَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ‌ۚ وَحَالَ بَيۡنَهُمَا الۡمَوۡجُ فَكَانَ مِنَ الۡمُغۡرَقِيۡنَ‏ (سورۃ ھود آیت 43)
اس نے کہا کہ میں ابھی پہاڑ سے جا لگوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔ فرمایا کہ آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں اور نہ کوئی بچ سکتا ہے مگر وہی جس پر اللہ رحم کرے۔ اتنے میں دونوں کے درمیان لہر حائل ہو گئ اور وہ ڈوب کر رہ گیا۔

ماحصل:

  • وقی: کسی برے کام کی عقوبت سے ڈرا کر اسے برے کام اور سزا سے بچانا
  • منع: کسی چیز کی روک بن کر بچانا۔
  • حجز: کسی تیسری چیز کا حائل ہو کر بچانا۔
  • احصن: نگہداشت اور حفاظت کر کے خود کو بچانا۔
  • جنب: کسی چیز سے دور لے جا کر بچانا۔
  • عصم: کسی مصیبت، خوف و خطرہ سے کسی دوسرے کو اپنی حفاظت میں لے کر بچانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بچنا

کے لیے وقی سے اتقی، حصن سے تحصن، جنب سے اجتنب اور عصم سے استعصم کے افعال لازم قرآن کریم میں آئے ہیں جن کی تشریح گزر چکی ، اب ان کی مثالیں دیکھیے ،

1: اتقی

کسی چیز سے کام کی سزا سے بچنے کے لیے برے کام اور اس کی سزا سے بچنا، پرہیز گاری اختیار کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَاِذۡ اَخَذۡنَا مِيۡثَاقَكُمۡ وَرَفَعۡنَا فَوۡقَكُمُ الطُّوۡرَؕ خُذُوۡا مَآ اٰتَيۡنٰكُمۡ بِقُوَّةٍ وَّ اذۡكُرُوۡا مَا فِيۡهِ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 63)
اور جب ہم نے تم سے عہد کر لیا اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے اس کو زور سے پکڑے رہو اور جو اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو تاکہ عذاب سے محفوظ رہو۔

2: تحصن

کسی چیز کی نگہداشت اور حفاظت کرکے اسے بچانا۔ یہ لفظ عموماً اپنی عفت کی حفاظت کے لیے مستعمل ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَلَا تُكۡرِهُوۡا فَتَيٰتِكُمۡ عَلَى الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّـتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ؕ وَمَنۡ يُّكۡرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنۡۢ بَعۡدِ اِكۡرَاهِهِنَّ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ (سورۃ النور آیت 33)
اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن (یا حفاطتِ نکاح میں) رہنا چاہتی ہیں، اور جو شخص انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہو جانے کے بعد (بھی) بڑا بخشنے والا مہربان ہے

3: اجتنب

کسی چیز سے دور رہ کر بچنا۔ ارشاد باری ہے،
فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِۙ‏ (سورۃ الحج آیت 30)
سو تم بتوں کی پلیدی سے بچا کرو اور جھوٹی بات سے پرہیز کیا کرو

4: استعصم

کسی مضرت، خوف یا گناہ سے خود بچنا۔ قرآن میں ہے:
قَالَتۡ فَذٰلِكُنَّ الَّذِىۡ لُمۡتُنَّنِىۡ فِيۡهِ‌ؕ وَ لَـقَدۡ رَاوَدتُّهٗ عَنۡ نَّـفۡسِهٖ فَاسۡتَعۡصَمَ‌ؕ وَلَٮِٕنۡ لَّمۡ يَفۡعَلۡ مَاۤ اٰمُرُهٗ لَـيُسۡجَنَنَّ وَلَيَكُوۡنًا مِّنَ الصّٰغِرِيۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 32)
زلیخا نے کہا تو یہ وہی ہے جسکے بارے میں تم مجھے طعنے دیتی تھیں اور بیشک میں نے اسکو اپنی طرف مائل کرنا چاہا مگر یہ بچا رہا اور اگر یہ وہ کام نہ کرے گا جو میں اسے کہتی ہوں تو قید کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو گا
مندرجہ بالا الفاظ علاوہ حذر اور تعفف بھی بچنا کے معنوں میں قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں۔

5: حذر

کسی متوقع خطرہ سے بچاؤ کی خاطر چوکنا اور ہوشیار رہنا (مف، م ل) ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ وَاَوۡلَادِكُمۡ عَدُوًّا لَّكُمۡ فَاحۡذَرُوۡهُمۡ‌ۚ وَاِنۡ تَعۡفُوۡا وَتَصۡفَحُوۡا وَتَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ (سورۃ التغابن آیت 14)
اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس اُن سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم صرفِ نظر کر لو اور درگزر کرو اور معاف کر دو تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے

6: تعفف

عف کے معنی حرام یا غیر مستحسن کام سے رکنا۔ پاکدامن رہنا اور تعفف کے معنی کوشش سے پاکدامن اور پارسا رہنا ہے (منجد، م ر) قرآن میں ہے:
لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِيۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِىۡ الۡاَرۡضِ يَحۡسَبُهُمُ الۡجَاهِلُ اَغۡنِيَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ‌ۚ تَعۡرِفُهُمۡ بِسِيۡمٰهُمۡ‌ۚ لَا يَسۡـَٔـلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَــافًا‌ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ (سورۃ البقرۃ آیت 273)
اور ہاں تم جو خرچ کرو گے تو ان حاجت مندوں کے لئے جو اللہ کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے اور مانگنے سے عار رکھتے ہیں یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو تونگر خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لو کہ حاجت مند ہیں اور شرم کے سبب لوگوں سے منہ پھوڑ کر اور لپٹ کر نہیں مانگ سکتے اور تم جو مال خرچ کرو گے کچھ شک نہیں کہ اللہ اسکو جانتا ہے ۔

ماحصل:

  • اتقی اور تقوی: بُرے کاموں کی عقوبت سے ڈر کر ان برے کاموں سے بچنا۔
  • تحصن: نگہداشت اور حفاظت کر کے بچنا۔
  • اجتنب: کسی چیز یا کام سے دور رہ کر بچنا۔
  • استعصم: کسی گناہ یا نقصان سے بچنا اور حفاظت رکھنا۔
  • حذر: آنے والے خطرہ سے ہوشیار رہنا اور بچنا۔
  • تعفف: غیر مستحسن اور حرام کاموں سے بہ تکلف بچنا اور پاکدامن رہنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بچہ (لڑکا)

کے لیے اجنّۃ ،ولید، مولود، ولد ،طفل، صبّی اور غلام کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اجنۃ

جنین کی جمع ہے۔ جنّ بمعنی کسی چیز کو ڈھانپ لینا اور پوشیدہ کرنا اور جنین وہ بچہ ہے جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہو ( فل ۹۰) ارشاد باری ہے:
هُوَ اَعۡلَمُ بِكُمۡ اِذۡ اَنۡشَاَكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَاِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّةٌ فِىۡ بُطُوۡنِ اُمَّهٰتِكُمۡ (سورۃ النجم آیت 32)
وہ تمکو خوب جانتا ہے۔ جب اس نے تمکو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے۔

2: ولیدا

ولیدا کا لغوی مفہوم نو زائیدہ بچہ ہے۔ پھر اس لفظ کا اطلاق چھوٹی عمر کے بچوں پر ہونے لگا (مف، فل ۱۹۰) قرآن میں ہے:
قَالَ اَلَمۡ نُرَبِّكَ فِيۡنَا وَلِيۡدًا وَّلَبِثۡتَ فِيۡنَا مِنۡ عُمُرِكَ سِنِيۡنَۙ‏ (سورۃ الشعراء آیت 18)
(فرعون نے) کہا: کیا ہم نے تمہیں اپنے یہاں بچپن کی حالت میں پالا نہیں تھا اور تم نے اپنی عمر کے کتنے ہی سال ہمارے اندر بسر کئے تھے
اور ولد اور مولود کا تعلق صرف بچہ یا اس کی عمر سے نہیں بلکہ والد کے مقابلہ میں اس کے (جنے جانے) کے فعل سے بھی ہے۔ وہ خواہ چھوٹی عمر کا ہو یا جوان ہو یا بوڑھا، اپنے والد کے مقابلے میں ولد اور مولود ہی ہے۔ ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمۡ وَاخۡشَوۡا يَوۡمًا لَّا يَجۡزِىۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِهٖ وَلَا مَوۡلُوۡدٌ هُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِهٖ شَيۡـــًٔا‌ؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ‌ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ‏ (سورۃ لقمان آیت 33)
لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے۔ اور نہ بیٹا باپ کے کچھ کام آ سکے۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے۔ اور نہ وہ بڑا فریب دینے والا شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے۔
اس لحاظ سے ولد اور مولود، ولید یعنی "نو زائیدہ بچہ" یا طفل شیر خوار کے معنوں میں بھی آ جاتے ہیں۔ مثلاً :
وَعَلَى الۡمَوۡلُوۡدِ لَهٗ رِزۡقُهُنَّ وَكِسۡوَتُهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَهَاۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوۡلُوۡدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ (سورۃ البقرۃ آیت 233)
اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمّے ہو گا۔ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی تو یاد رکھو کہ نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے۔
اور ولد کے لفظ کا تعلق عمر سے ہو تو اس کا اطلاق عموماً آٹھ دس سال کے نو خیز بچوں پر ہوتا ہے جو چھوٹے موٹے کام کرنے اور خدمت کرنے کے قابل ہو جائیں اور اس کی جمع ولدان آتی ہے۔ مذکر و مونث دونوں کے لیے مستعمل ہے (فل ۹۳) جیسا کہ قرآن میں ہے :
وَيَطُوۡفُ عَلَيۡهِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ‌ۚ اِذَا رَاَيۡتَهُمۡ حَسِبۡتَهُمۡ لُـؤۡلُـؤًا مَّنۡثُوۡرًا‏ (سورۃ الدھر آیت 19)
اور ان کے اِرد گرد ایسے (معصوم) بچے گھومتے رہیں گے، جو ہمیشہ اسی حال میں رہیں گے، جب آپ انہیں دیکھیں گے تو انہیں بکھرے ہوئے موتی گمان کریں گے

3: طفل

طفل کے معنی نرم و نازک ہونا اور طفلة گداز بدن عورت کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے جب تک بچہ نرم و نازک رہے وہ طفل ہے (مف) تاہم اس سے ایسے بچے مراد ہوتے ہیں جو ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں (جمع اطفال) ارشاد باری ہے:
وَاِذَا بَلَغَ الۡاَطۡفَالُ مِنۡكُمُ الۡحُـلُمَ فَلۡيَسۡتَـٔۡـذِنُوۡا كَمَا اسۡتَـاْذَنَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ (سورۃ النور آیت 59)
اور جب تم میں سے بچے حدِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ (تمہارے پاس آنے کے لئے) اجازت لیا کریں جیسا کہ ان سے پہلے (دیگر بالغ افراد) اجازت لیتے رہتے ہیں، اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام خُوب واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب علم والا اور حکمت والا ہے
اس آیت سے یہ واضح ہے کہ بلوغت کے بعد طفل بچہ کی حد سے بڑے کی حد میں داخل ہو جاتا ہے۔

4: صبی

صبی وہ بچہ ہے جو ابھی نادانی اور کھیل کود کی عمر میں ہو (م ا) اور اس لفظ کا تعلق عمر سے زیادہ بچپنے کی عادات سے ہوتا ہے۔ اگر لڑکا بالغ ہونے کے بعد بھی نادان اور کھیل کود میں مبتلا ہے تو وہ صبی ہی ہے۔ صبی بمعنی بچگانہ عادات اور حرکات و سکنات والا بچہ ارشاد باری ہے:
يٰيَحۡيٰى خُذِ الۡكِتٰبَ بِقُوَّةٍ‌ؕ وَاٰتَيۡنٰهُ الۡحُكۡمَ صَبِيًّاۙ‏ (سورۃ مریم آیت 12)
فرمایا اے یحیٰی ہماری کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو۔ اور ہم نے انکو لڑکپن ہی میں دانائی عطا فرمائی تھی۔

5: غلم

وہ بچہ جس میں جنسی خواہشات بیدار ہو چکی ہوں (م ل) یعنی بالغ ہو چکا ہو۔ نوجوان اور اغتلم الفحل غلمۃ یعنی کسی نر میں جماع کی خواہش کا ہیجان پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ غلیم نوجوان اور اغلام مشت زنی کرنے کو۔ غلام کی جمع غلمۃ اور غلمان آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَيَطُوۡفُ عَلَيۡهِمۡ غِلۡمَانٌ لَّهُمۡ كَاَنَّهُمۡ لُـؤۡلُـؤٌ مَّكۡنُوۡنٌ‏ (سورۃ الطور آیت 24)
اور نوجوان (خدمت گزار) اُن کے اِردگرد گھومتے ہوں گے، گویا وہ غلاف میں چھپائے ہوئے موتی ہیں

ماحصل:

  • جنین: وہ بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہو۔
  • ولد: آٹھ دس سال کی عمر تک کا بچہ (والد کی طرف نسبت کے لحاظ سے ہر عمر کا آدمی)
  • طفل: بلوغت کی عمر تک کا بچہ۔
  • صبی: بچپنے کی عادات اور کھیل کود میں رہنے والا نادان بچہ۔
  • غلام: وہ بچہ جو بالغ ہو چکا ہو۔ نوجوان۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بچھانا

کے لیے دحی (دحو) اور طحی (طحو)، سطح، فرش اور مھد کے الفاظ آئے ہیں۔

1، 2: دحی، طحی

یہ دونوں لفظ در اصل ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ صرف تلفظ کا فرق ہے (مف) یعنی مختلف علاقوں کی لغت ہے۔ قرآن کریم میں یہ دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں۔ کہتے ہیں دحی المطر الحصی۔ بارش کنکریوں کو دور دور تک بہا لے گئی اور دحی الرجل کے معنی اس شخص نے ملک بھر میں (یعنی دور دراز تک) سفر کیا۔ تو دحی اور طحی کے معنی دور دور تک لے جا بچھانا اور پھیلانا کے ہیں۔ قرآن کریم کی متعلقہ دونوں آیات یہ ہیں:
وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنٰٮهَا وَالۡاَرۡضِ وَمَا طَحٰٮهَا (سورۃ الشمس آیت 5، 6)
اور آسمان کی قَسم اور اس (قوت) کی قَسم جس نے اسے تعمیر کیا اور اور زمین کی اور اس ذات کی جس نے اسے پھیلایا۔
وَالۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِكَ دَحٰٮهَاؕ‏ (سورۃ النازعات آیت 30)
اور اُسی نے زمین کو اِس (ستارے: سورج کے وجود میں آجانے) کے بعد (اِس سے) الگ کر کے زور سے پھینک دیا (اور اِسے قابلِ رہائش بنانے کے لئے بچھا دیا)
اور جدید تحقیق یہ ہے کہ دحی کے مفہوم میں گولائی کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ ادحیّۃ بمعنی ریت میں شتر مغ کے انڈے دینے کی جگہ (منجد) اور ادحی النعام بمعنی ریت میں شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ (مف) اور دحوۃ شتر مرغ کے انڈے کو کہتے ہیں۔ اور لفظ دحی سے زمین کا گول ہونا ثابت کیا جاتا ہے۔

3: سطح

سطح کے بنیادی معنی پھیلانا اور پھر ہموار کرنا ہیں۔ سطح البیت گھر کی چھت کو ہموار کرنا اور مسطح ہموار کرنے کے اوزار کو کہتے ہیں۔ مکان کے اوپر کے حصہ اور چھت کو سطح کہتے ہیں (منجد) امام راغب کے الفاظ میں السطح: اعلی البیت جعل سوّیا (مف) قرآن میں ہے:
وَاِلَى الۡاَرۡضِ كَيۡفَ سُطِحَتۡ (سورۃ الغاشیہ آیت 20)
اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کہ وہ کس طرح (گولائی کے باوجود) بچھائی گئی ہے‏

4: فرش

فرش بمعنی کپڑا وغیرہ بچھانا، بستر لگانا۔ اور ہر وہ چیز جو بچھائی جائے اسے فرش اور فراش (بمعنی بچھونا) کہتے ہیں (مف) فرش کے بنیادی معنی کسی چیز کو پھیلانا اور فراخ کرنا ہے (م ل) یعنی کسی چیز کو پورے کا پورا پھیلا دینا اور فرش الدار بمعنی فرش لگانا، اینٹ اور پتھر بچھانا (منجد)
الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً (سورۃ البقرۃ آیت 22)
جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا

5: مھد

صاحب منجد کے نزدیک جس طرح چھت کو پھیلانے اور ہموار کرنے کے لیے سطح کا لفظ آتا ہے اسی طرح زمین کو ہموار کرنے کے لیے مھد استعمال ہوتا ہے (منجد) لیکن مہد ماں کی گود کو بھی کہتے ہیں جس میں تربیت کا پہلو بھی شامل ہے۔ اور مھد الارض معنی یہ ہوں گے کہ زمین کو اس طرح پھیلانا کہ اس کے باشندگان کو وسائل رزق بھی مناسب طور پر مہیا ہوں۔ اور قرآن کریم سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَمَهَّدتُّ لَهٗ تَمۡهِيۡدًاۙ‏ (سورۃ المدثر آیت 14)
اور میں نے اسے (سامانِ عیش و عشرت میں) خوب وُسعت دی تھی
اور قرآن کریم کی اس آیت:
وَالۡاَرۡضَ فَرَشۡنٰهَا فَنِعۡمَ الۡمَاهِدُوۡنَ‏ (سورۃ الذریات آیت 48)
اور (سطحِ) زمین کو ہم ہی نے (قابلِ رہائش) فرش بنایا سو ہم کیا خوب سنوارنے اور سیدھا کرنے والے ہیں
سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ مھد میں فرش سے زیادہ وسعت ہے یعنی ضرورت سے پیشتر متعلقہ سامان کی تیاری۔

ماحصل:

  • دحی اور طحی: کسی چیز کو اپنی جگہ سے دور دور تک لے جا کر پھیلا دینا۔
  • سطح: پھیلانا یا بچھانا اور پھر اسے ہموار کرنا۔
  • فرش: کسی چیز کو پورے کا پورا پھیلانا یا بچھا دینا اور ہموار کرنا۔
  • مہد: بچھانے کے ساتھ اس میں سامان تربیت بھی فراہم کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بچھونا

کے لیے قرآن کریم میں مھاد، فراش اور مضاجع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: مھاد

مھد کا معنی بچھانا اور اس میں سامان تربیت مہیا کرنا ہے۔ جیسا کہ اوپر تفصیل گزر چکی ہے۔ زمین کو اللہ تعالی نے اس لحاظ سے مھاد فرمایا ہے کہ اس میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِهٰدًاۙ‏ (سورۃ النباء آیت 6)
کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟

2: فراش

فرش بمعنی بچھانا اور ہموار کرنا۔ الفرش اپنے اصل معنی کے لحاظ سے کپڑا بچھانے کے معنوں میں آتا ہے (مف) تاہم فرش اینٹ پتھر کا فرش لگوانے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ جیسے فرش الرجل کے معنی بچھونا بچھانا بھی ہے اور فرش بنوانا بھی (منجد) اور فراش بچھونا یا بستر کو کہتے ہیں اور کنایۃ فراش میاں بیوی میں سے ہر ایک پر بولا جاتا ہے (مف) جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا الولد للفراش اور للعاہر الحجر (لڑکا خاوند کا ہے اور زانی کے لیے رجم ہے) قرآن کریم میں اس لفظ کو زمین کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اور بچھونا یعنی بستر کے معنوں میں بھی۔ (جمع فرش) ارشاد باری ہے:
مُتَّكِــِٕيۡنَ عَلٰى فُرُشٍۢ بَطَآٮِٕنُهَا مِنۡ اِسۡتَبۡرَقٍ‌ؕ وَجَنَا الۡجَـنَّتَيۡنِ دَانٍ‌ۚ‏ (سورۃ الرحمن آیت 54)
اہلِ جنت ایسے بستروں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استر نفِیس اور دبیز ریشم (یعنی اَطلس) کے ہوں گے، اور دونوں جنتوں کے پھل (اُن کے) قریب جھک رہے ہوں گے۔

3: مضاجع:

مضجع کی جمع اور ضجع بمعنی پہلو یا کروٹ کے بل لیٹنا، سستانا یا آرام کرنا۔ خواہ اونگھ یا نیند آ جائے یا نہ آئے۔ نیم خوابی کی حالت (م ق) اور اضجعہ بمعنی اس نے سلا دیا (منجد) اور مضجع بمعنی بستر یا بچھونا جس پر آرام کیا یا سویا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
تَتَجَافٰى جُنُوۡبُهُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ يَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ خَوۡفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَ‏ (سورۃ السجدۃ آیت 16)
انکے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے اور جو کچھ ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

ماحصل:

  • مھاد: کنایۃ زمین کو کہتے ہیں کہ وہ تمام جانوروں کو سامان تربیت کے علاوہ آرم گاہ یعنی بستر کا کام دیتی ہے۔
  • فراش: بستر یا بچھونا کے لیے عام مستعمل لفظ ہے۔
  • مضجع: ہر ایسی چیز جس کے ساتھ انسان ٹیک لگا کر سستا سکے یا سو سکے۔ خواہ چار پائی اور بستر ہو یا کوئی اور چیز۔
بخشنا: اگر کچھ دینے کے معنی ہیں تو "دینا" اور اگر گناہ وغیرہ معاف کرنا کے معنی میں تو "معاف کرنا" دیکھیے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بخل کرنا

کے لیے بخل، امسک، اوعی، اکدی، اقتر، ضنّ، شحّ، اور غلّ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: بخل

بخل کے معنی اپنے جمع شدہ مال میں سے ایسی جگہ بھی خرچ نہ کرنا جہاں خرچ کرنا چاہیے (مف) بخل دو قسم کا ہوتا ہے (1) کسی دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں یا انفاق فی سبیل اللہ میں بخل کرنا (۲) اپنی جائز ضروریات پر بھی خرچ نہ کرنا۔ یہ دونوں قسم کا بخل مذموم فعل ہے۔ اور یہ لفظ عام ہے جو ہر طرح کے بخل پر استعمال ہو سکتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اۨلَّذِيۡنَ يَـبۡخَلُوۡنَ وَيَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡلِ وَيَكۡتُمُوۡنَ مَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابًا مُّهِيۡنًا‌ۚ‏ (سورۃ النساء آیت 37)
جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہو گئے۔ پھر ایمان لائے پھر کافر ہو گئے پھر کفر میں بڑھتے گئے انکو اللہ نہ تو بخشے گا اور نہ انہیں سیدھا رستہ دکھا ئے گا۔

2: امسک

امسک کے معنی ہو کچھ پاس ہو اسے ہاتھ سے نکلنے نہ دینا اور تھامے رکھنا۔ یا کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاظت کرنا (مف) کے ہیں۔ اور امساک کے معنی بخل اور ممسک بمعنی بخیل بھی استعمال ہوتا ہے (م ل) ارشاد باری ہے:
قُل لَّوۡ اَنۡتُمۡ تَمۡلِكُوۡنَ خَزَآٮِٕنَ رَحۡمَةِ رَبِّىۡۤ اِذًا لَّاَمۡسَكۡتُمۡ خَشۡيَةَ الۡاِنۡفَاقِ‌ؕ وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ قَتُوۡرًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 100)
کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے خوف سے انکو بند کر رکھتے۔ اور انسان دل کا بہت تنگ ہے۔

3: اوعی

الایعاء کے معنی کسی چیز (مال وغیرہ )کو تھیلی میں سنبھال کر اوپر سے منہ بند کر دینا (مف) صاحب منجد کے نزدیک یہ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے (1) کسی چیز کو یاد رکھنا (۲) جمع کرنا اور (۳) بخل کرنا (منجد) اور ابن الفارس کے نزدیک اس کا بنیادی معنی صرف منہ بند کرنا ہے (م - ل) اور وعاء ہر ایسے سامان کو کہتے ہیں جس کا منہ بند کر دیا جائے یا مقفل کر دیا جائے۔
قرآن میں ہے:
تَدۡعُوۡا مَنۡ اَدۡبَرَ وَتَوَلّٰىۙ‏ وَجَمَعَ فَاَوۡعٰى‏ (سورۃ المعارج آیت 17، 18)
وہ اُسے بلا رہی ہے جس نے (حق سے) پیٹھ پھیری اور رُوگردانی کی اور (اس نے) مال جمع کیا پھر (اسے تقسیم سے) روکے رکھا۔
اور اُذن واعیۃ
لِنَجۡعَلَهَا لَـكُمۡ تَذۡكِرَةً وَّتَعِيَهَاۤ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ‏ (سورۃ الحاقہ آیت 12)
تاکہ ہم اس (واقعہ) کو تمہارے لئے (یادگار) نصیحت بنا دیں اور محفوظ رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں
بمعنی کسی بات کو دھیان سے سننے اور یاد رکھنے والے کان اور مراد اس سے ایسے آدمی ہیں جو کسی بات کو خوب غور سے سنیں ۔ پھر اس کو خوب یاد رکھیں اور اس بات کے الفاظ یا مفہوم میں کس قسم کی کمی بیشی نہ ہونے دیں۔ جیسا کہ رسول اللہ نے اپنے مشہور خطبہ حجۃ الوداع میں، جو آپ نے اونٹنی پر سوار ہو کر منی کے مقام پر دیا تھا ، فرمایا :
نضّر اللہ عبدا سمع مقالتی فوعاہا ثم ادّاہا و بلّغہا (ترمذی)
اللہ تعالی اس بندے کو خوش حال رکھے جس نے میری احادیث کو سنا، پھر ان کو یاد رکھا اور پھر دوسروں تک پہنچایا۔
گویا وعی کا لفظ صرف اموال کے لیے نہیں بلکہ ہر قابل حفاظت چیز کے لیے عام ہے۔

4: اکدی

كدية سخت زمین کو کہتے ہیں۔ اور حفر فاکدی کے معنی ہیں وہ گڑھا کھودتے کھودتے سخت زمین تک جا پہنچا (مف، فل 262) اور مال کے خرچ کرنے کی نسبت سے اکدی کے معنی تھوڑا سا خرچ کر کے ہاتھ روک لینا۔ یا خرچ کرنے کا ارادہ کر کے پھر رک جانا ہے۔ قرآن میں ہے:
اَفَرَءَيۡتَ الَّذِىۡ تَوَلّٰىۙ‏ وَاَعۡطٰى قَلِيۡلاً وَّاَكۡدٰى‏ (سورۃ النجم آیت 33، 34)
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے منہ پھیر لیا۔اور تھوڑا سا دیا پھر ہاتھ روک لیا۔

5: اقتر

قتر کے معنی بہت کم خرچ کرنا ہے۔ (مف) اور اقتار، اسراف کی ضد ہے۔ یعنی اپنی جائز ضروریات پر بھی ضرورت سے کم خرچ کرنا اور کنجوسی کر جانا ۔ صاحب منتہی الارب کے نزدیک اس کے معنی وہ شخص جس نے اپنے اہل وعیال پر نفقہ تنگ کر رکھا ہو۔ (م ا) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ يُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ يَقۡتُرُوۡا وَكَانَ بَيۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا‏ (سورۃ الفرقان آیت 67)
اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہے

6: ضنّ

ضنّ کے معنی کسی پسندیدہ اور مرغوب شے کے دینے میں بخل کرنا (مف) اور الضنائن وہ چیزیں ہیں جن کی نفاست کی وجہ سے بخل کیا جائے (منجد) جیسے حکیم اپنے مجرب نسخے بتانے یا کوئی فن کار اپنا فن سکھلانے میں بخل کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَمَا هُوَ عَلَى الۡغَيۡبِ بِضَنِيۡنٍ‌ۚ‏ (سورۃ التکویر آیت 24)
اور وہ (یعنی نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لئے کوئی کمی نہیں چھوڑی)

7: شحّ

شحّ کے معنی بخل کرنا حرص و لالچ کرنا (منجد) جب بخل اور حرص دونوں باتیں جمع ہو جائیں تو اسے شح کہتے ہیں (فل 33 ، م ل) اور اس کا دوسرا نام شدت حرص ہے۔ یعنی ہر وقت مال و دولت سمیٹنے کی فکر میں رہنا اور خرچ کرنے میں بخل کرنا۔ ارشاد باری ہے:
وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِهٖ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ‏ (سورۃ الحشر آیت 9)
اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں
اور شحیح کے معنی بخیل اور حریص آدمی اور اس کی جمع شحاح اور اشحّۃ آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَشِحَّةً عَلَيۡكُمۡ ‌‌ۖۚ فَاِذَا جَآءَ الۡخَوۡفُ رَاَيۡتَهُمۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَيۡكَ تَدُوۡرُ اَعۡيُنُهُمۡ كَالَّذِىۡ يُغۡشٰى عَلَيۡهِ مِنَ الۡمَوۡتِ‌ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الۡخَـوۡفُ سَلَقُوۡكُمۡ بِاَلۡسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَى الۡخَيۡرِ‌ؕ اُولٰٓٮِٕكَ لَمۡ يُؤۡمِنُوۡا فَاَحۡبَطَ اللّٰهُ اَعۡمَالَهُمۡ‌ؕ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرًا‏ (سورۃ الاحزاب آیت 19)
یہ اس لئے کہ تم سے بخل کرتے ہیں۔ پھر جب ڈر کا وقت آئے تو تم انکو دیکھو کہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں اور انکی آنکھیں اسی طرح پھر رہی ہیں جیسے کسی کو موت سے غشی آ رہی ہو پھر جب خوف جاتا رہے تو تیز تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں باتیں کریں اور مال میں بخل کریں یہ لوگ حقیقت میں ایمان لائے ہی نہ تھے تو اللہ نے انکے اعمال برباد کر دیئے اور یہ اللہ کو آسان تھا۔

8: غلّ

غلّ کے بنیادی معنی اس طرح کی خیانت ہے کہ اپنے زیر تصرف کوئی چیز جو اپنی ملکیت نہ ہو اٹھا کر چپکے سے اپنے سامان میں رکھ لی جائے جیسے غنیمت کے مشترکہ مال سے کوئی چیز اٹھا کر اپنی ملکیت میں کر لینا۔ اور غلّ بمعنی طوق ہتھکڑی یا بیڑی یعنی ہر وہ چیز جس سے کسی کے اعضاء کو جوڑ کر وسط میں باندھ دیا جاتا ہے اور اس کی جمع اغلال ہے۔ اسی نسبت سے کنایۃ مغلول الید کنجوس شخص کو بھی کہ دیتے ہیں جس کے ہاتھ بندھے ہوتے ہوں اور وہ کچھ خرچ نہیں کر سکتا۔
قرآن میں ہے:
وَقَالَتِ الۡيَهُوۡدُ يَدُ اللّٰهِ مَغۡلُوۡلَةٌ‌ ؕ غُلَّتۡ اَيۡدِيۡهِمۡ وَلُعِنُوۡا بِمَا قَالُوۡا‌ۘ بَلۡ يَدٰهُ مَبۡسُوۡطَتٰنِۙ يُنۡفِقُ كَيۡفَ يَشَآءُ‌ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 64)
اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے یعنی اللہ بخیل ہے انہیں کے ہاتھ باندھے جائیں اور ایسا کہنے کے سبب ان پر لعنت ہو اصل یہ ہے کہ اسکے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔ وہ جس طرح اور جتنا چاہتا ہے خرچ کرتا

ماحصل:

  • بخل: جائز ضرورت سے کم خرچ کرنا اپنی ذات یا دوسروں کے لیے۔ نیز یہ لفظ بخل کے لیے عام ہے۔
  • امسك: جو کچھ بھی اپنے پاس ہو اسے روکے رکھنا۔
  • اوعی: سنبھالنا اور کمی نہ ہونے دنیا۔ ہر قابل حفاظت چیز کے لیے عام ہے۔
  • اکدی: تھوڑا سا خرچ کرنے کے بعد رک جانا یا ارادہ کر کے پورا نہ کرنا۔
  • اقتر: اپنے عیال میں نان و نفقہ میں بخل کرنا یا اپنی ذات پر بھی کنجوسی کرنا۔
  • ضنّ: کسی مرغوب شے کے بتلانے میں بخل کرنا۔
  • شحّ: شدت حرص و بخل کا مجموعہ
  • مغلول اليد محاورتا بخیل اور کنجوس آدمی جو دو سروں کو کچھ نہ دے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بد بختی

کے لیے شقوة ، نحوسة ، طَائِر، شئوم اور حسوم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: شقوة

شقوة اور شقاوة دونوں کے معنی بد بختی (ضد سعادۃ) اور جس طرح سعادۃ امور اضافیہ سے ہے۔ اسی طرح شقاوہ اور شقوہ بھی امور اضافیہ سے ہے اور شقی وہ شخص ہے جو فطرتاً ہی بد بخت یا بد نصیب ہو (مف) قرآن میں ہے:
قَالُوۡا رَبَّنَا غَلَبَتۡ عَلَيۡنَا شِقۡوَتُنَا وَكُنَّا قَوۡمًا ضَآلِّيۡنَ‏ (سورۃ المؤمنون آیت 106)
وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم پر ہماری کم بختی غالب آ گئی اور ہم رستے سے بھٹک گئے۔

2: نحوسة

نحاس کے معنی تانبہ بھی ہے اور آگ کی ایسی لپٹ بھی جس کا رنگ تانبے جیسا ہو۔ اور نحس کے معنی آسمان کا سرخ ہو کر تانبے کی رنگت جیسا ہو جانا ہے اور یہ نحوست کے لیے ضرب المثل ہے۔ اور نحس اور نحوسة بمعنی سختی اور بدبختی کا دور (نحس کی ضد بھی سعد ہی آتی ہے) ارشاد باری ہے:
فَاَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ رِيۡحًا صَرۡصَرًا فِىۡۤ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيۡقَهُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡىِ فِىۡ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ؕ وَلَعَذَابُ الۡاٰخِرَةِ اَخۡزٰى‌ وَهُمۡ لَا يُنۡصَرُوۡنَ‏ (سورۃ حم سجدۃ آیت 41)
سو ہم نے اُن پر منحوس دنوں میں خوفناک تیز و تُند آندھی بھیجی تاکہ ہم انہیں دنیوی زندگی میں ذِلت کے عذاب کا مزہ چکھائیں، اور آخرت کا عذاب تو سب سے زیادہ ذِلت انگیز ہوگا اور اُن کی کوئی مدد نہ کی جائے گی

3: طائر

طار بمعنی پرند وغیرہ کا ہوا میں اڑنا اور طائر (جمع طیر)، بمعنی پرندہ ہے۔ چونکہ پرندوں سے فال لینے کا رواج عام تھا۔ لہذا طائر کا لفظ فال یا شگون لینے کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگا۔ اس لفظ کا استعمال عموماً برے معنوں میں ہوتا ہے۔ اطّیّر اور تطير کے معنی بدفالی یا برا شگون لینا ہے (ضد تیمن اور تبرک) گویا طائر کا اصل معنی بد بختی نہیں بلکہ بدبختی کی فال لینا ہے۔ قرآن میں ہے:
قَالُـوۡۤا اِنَّا تَطَيَّرۡنَا بِكُمۡۚ لَٮِٕنۡ لَّمۡ تَنۡتَهُوۡا لَنَرۡجُمَنَّكُمۡ وَلَيَمَسَّنَّكُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ (سورۃ یس آیت 18)
(بستی والوں نے) کہا: ہمیں تم سے نحوست پہنچی ہے اگر تم واقعی باز نہ آئے تو ہم تمہیں یقیناً سنگ سار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں ضرور دردناک عذاب پہنچے گا
تو ان پیغمبروں نے یہ جواب دیا کہ :
قَالُوۡا طآٮِٕرُكُمۡ مَّعَكُمۡؕ اَٮِٕنۡ ذُكِّرۡتُمۡؕ بَلۡ اَنۡـتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ‏ (سورۃ یس آیت 19)
(پیغمبروں نے) کہا: تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے، کیا یہ نحوست ہے کہ تمہیں نصیحت کی گئی، بلکہ تم لوگ حد سے گزر جانے والے ہو

4: شئوم

الشامة المشئمة بمعنی نحوست، بے برکتی اور بایاں پہلو (منجد) اور بایاں پہلو بھی نحوست کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اور شامت دراصل ایسی بد شگونی کو کہتے ہیں جو اپنے اعمال کے نتیجہ میں متوقع ہو۔ شامت اعمال مشہور لفظ ہے اور تشاءم بمعنی بُری فال لینا (ضد تیمن )ارشادِ باری ہے
ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَةِؕ‏ اُولٰٓٮِٕكَ اَصۡحٰبُ الۡمَيۡمَنَةِؕ‏ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِنَا هُمۡ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡـَٔـمَةِؕ‏ (سورۃ البلد آیت 17 تا 19)
پھر (شرط یہ ہے کہ ایسی جدّ و جہد کرنے والا) وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہیں اور باہم رحمت و شفقت کی تاکید کرتے ہیں یہی لوگ دائیں طرف والے (یعنی اہلِ سعادت و مغفرت) ہیں اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا وہ بائیں طرف والے ہیں (یعنی اہلِ شقاوت و عذاب) ہیں

5: حسوم

الحسم بمعنی چیز کو کاٹنا اور اس کے نام و نشان تک کو مٹا دیا اور زائل کر دینا۔ اور حسام بمعنی تلوار۔ پھر حسوم ایسی نحوست یا عذاب کو بھی کہتے ہیں کہ انسان کا نام و نشان تک مٹا ڈالے (مف) ارشاد باری ہے:
وَاَمَّا عَادٌ فَاُهۡلِكُوۡا بِرِيۡحٍ صَرۡصَرٍ عَاتِيَةٍۙ‏ سَخَّرَهَا عَلَيۡهِمۡ سَبۡعَ لَيَالٍ وَّثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍۙ حُسُوۡمًا ۙ فَتَرَى الۡقَوۡمَ فِيۡهَا صَرۡعٰىۙ كَاَنَّهُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ خَاوِيَةٍ‌ۚ‏ (سورۃ الحاقہ آیت 6، 7)
اور رہے قومِ عاد کے لوگ! تو وہ (بھی) ایسی تیز آندھی سے ہلاک کر دئیے گئے جو انتہائی سرد نہایت گرج دار تھی اللہ نے اس (آندھی) کو ان پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن مسلّط رکھا، سو تُو ان لوگوں کو اس (عرصہ) میں (اس طرح) مرے پڑے دیکھتا (تو یوں لگتا) گویا وہ کھجور کے گرے ہوئے درختوں کی کھوکھلی جڑیں ہیں

ماحصل:

  • شقوۃ: ایسی بے برکتی جو مقدر ہو۔
  • نحوسۃ: بد بختی اور سختی کا دور۔
  • طائر: کسی کے متعلق بد بختی کا فال لینا، بد شگونی۔
  • شئوم: شامۃ، اعمال کے نتیجہ میں متوقع بد بختی۔
  • حسوم: ایسی بد بختی جو ملیا میٹ کر دے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بد دعا دینا

کے لیے لعن ، بعد، سحقا اور ابتھل (بھل) کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: لعن

بمعنی کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کرنا اور دھتکارنا ہے۔ اور جب اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو تو اس کا مطلب اللہ کی رحمت اور توفیق سے دور ہوتا ہے (مف) اور نیز بمعنی گالی دینا، نیکی سے دور کرنا اور دھتکارنا ہے (منجد) اور لعنت بد دعا کے لیے عام اور جامع لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے۔
لُعِنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡۢ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيۡسَى ابۡنِ مَرۡيَمَ‌ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوۡا يَعۡتَدُوۡنَ‏ (سورۃ المائدۃ آیت 78)
جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسٰی ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔ یہ اس لئے کہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کئے جاتے تھے۔

2: بعد

بعد اور بعد (بعدا) بمعنی دور ہونا۔ ہلاک ہونا۔ مرنا۔ اور بعدا بد دعا کا کلمہ ہے یعنی اللہ اس کو ہلاک کرے یا اپنی رحمت سے دور کرے (منجد) ارشاد باری ہے:
كَاَنۡ لَّمۡ يَغۡنَوۡا فِيۡهَا‌ؕ اَلَا بُعۡدًا لِّمَدۡيَنَ كَمَا بَعِدَتۡ ثَمُوۡدُ (سورۃ ھود آیت 95)
گویا ان میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ سن رکھو کہ مدین پر ویسی ہی پھٹکار ہے جیسی ثمود پر پھٹکار تھی۔

3: سُحْقًا

سحق بمعنی دوا وغیرہ کو پیسنا ہے۔ اور استحق الثوب بمعنی کپڑے کا پرانا ہونا اور اسحقه اللہ کے معنی اللہ اسے ہلاک کرے (منجد) نیز سحق سُحقاً بمعنی دور ہونا اور استحق بمعنی دور کرنا بھی ہے (منجد) گویا یہ بھی بد دعا کا کلمہ ہے اور اس کا معنی بھلائی سے دوری ہے۔ مگر اس میں بعدا سے زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَاعۡتَرَفُوۡا بِذَنۡۢبِهِمۡ‌ۚ فَسُحۡقًا لِّاَصۡحٰبِ السَّعِيۡرِ‏ (سورۃ الملک آیت 11)
پس وہ اپنے گناہ کا اِعتراف کر لیں گے، سو دوزخ والوں کے لئے (رحمتِ اِلٰہی سے) دُوری (مقرر) ہے

4: ابتھل

ابتھلت فلاناً محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کا معنیٰ ہے کسی کو اس کی رائے اور ارادہ میں آزاد چھوڑ دینا اور البھل والابتهال في الدُّعاء کے معنی دعا میں پوری آزادی اور عاجزی سے دعا کرنا (مف) پھر چونکہ آیت مباہلہ میں اللہ کی لعنت کا ذکر ہے۔ اس لیے مباہلہ کا لفظ ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے کے معنوں میں مشہور ہو گیا گویا اس کا استعمال بھی برے مفہوم میں ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَمَنۡ حَآجَّكَ فِيۡهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَاَبۡنَآءَكُمۡ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمۡ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَكُمۡ ثُمَّ نَبۡتَهِلۡ فَنَجۡعَل لَّعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَى الۡكٰذِبِيۡنَ‏ (سورۃ آل عمران آیت 61)
پھر اگر یہ لوگ عیسٰی کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اسکے بعد کہ تم کو حقیقت معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق اللہ سے دعا و التجا کریں اس طرح جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔

ماحصل:

  • لعن: خدا کی رحمت اور توفیق سے دوری کی بد دعا۔
  • بعد: رحمت سے دوری اور ہلاکت کی بد دعا۔
  • سحقا: بد دعا کے لیے عام اور جامع لفظ۔ اس کے مفہوم میں بعدا سے زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔
  • ابتھال: فریقین کا ایک دوسرے پر لعنت کے لیے مکمل آزادی سے دعا و التجا کرنا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بدصورت بنانا – ہونا

کے لیے مسخ ، کلح اور قبیح کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: مسخ

بمعنی شکل و صورت کو بگاڑ دینا اور خراب کر دنیا (مف) ارشاد باری ہے:
وَلَوۡ نَشَآءُ لَمَسَخۡنٰهُمۡ عَلٰى مَكَانَتِهِمۡ فَمَا اسۡتَطَاعُوۡا مُضِيًّا وَّلَا يَرۡجِعُوۡنَ (سورۃ یس آیت 67)
اور اگر ہم چاہتے تو اُن کی رہائش گاہوں پر ہی ہم ان کی صورتیں بگاڑ دیتے پھر نہ وہ آگے جانے کی قدرت رکھتے اور نہ ہی واپس لوٹ سکتے‏

2: کلح

كلحة بمعنی منہ اور اس کے آس پاس کا حصہ اور کالح وہ شخص جس کے ہونٹ آپس میں ملیں نہیں بلکہ کھلے رہتے ہوں اور کلح، كلّح بمعنی تیوری چڑھا ہوا ہونا اور اکلوّح بمعنی تیوری پڑھانے میں دانت نکالنا (منجد) اور صاحب فقہ اللغۃ کے نزدیک یہ تیوری چڑھانے کا انتہائی درجہ ہے (دیکھیے تیوری چڑھانا)، جس میں انسان کا حلیہ بگڑ جاتا ہے اور دانت نکلے ہونے کی وجہ سے بڑا بد صورت دکھائی دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
تَلۡفَحُ وُجُوۡهَهُمُ النَّارُ وَهُمۡ فِيۡهَا كٰلِحُوۡنَ‏ (سورۃ المؤمنون آیت 104)
آگ انکے چہروں کو جھلس دے گی اور وہ اس میں بدشکل ہو رہے ہوں گے۔

3: قبح

بمعنی بدصورت ہونا۔ بد نما ہونا اور قبیح بمعنی بُرا۔ بد نما۔ بد شکل اور قبح کا لفظ معنوی طور پر بھی استعمال ہوتا ہے بمعنی قولی یا فعل یا شکل کا برا ہونا (منجد) ارشاد باری ہے:
وَاَتۡبَعۡنٰهُمۡ فِىۡ هٰذِهِ الدُّنۡيَا لَـعۡنَةً‌ ۚ وَيَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ هُمۡ مِّنَ الۡمَقۡبُوۡحِيۡنَ (سورۃ القصص آیت 42)
اور اس دنیا سے ہم نے ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور وہ قیامت کے روز بھی بدحالوں میں ہوں گے
اس آیت میں مقبوحین دونوں معنی دے رہا ہے۔

ماحصل:

  • مسخ: اچھی شکل و صورت کو بگاڑنے اور بری بنانے کے لیے۔
  • کلح: پیدائشی طور پر بری شکل و صورت ہونے کے لیے آتا ہے۔ صفات کے لیے بھی آتا ہے۔
  • قبح: پیدائشی طور پر بری شکل و صورت ہونے کے لیے آتا ہے۔ صفات کے لیے بھی آتا ہے۔
بد فالی اور بد شگونی کے لیے "بد بختی" اور "نامبارک سمجھنا" دیکھیے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بدکاری

کے لیے زنا، بغاء ، سافح اور فاحشہ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: زنا

معروف لفظ ہے یعنی کسی مرد کا غیر عورت سے یا عورت کا اپنے مرد کے علاوہ کسی دوسرے سے بد فعلی کا ارتکاب زنا کہلاتا ہے (مف) ارشاد باری ہے:
وَلَا تَقۡرَبُوۡا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ؕ وَّسَآءَ سَبِيۡلاً‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 32)
اور زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بےحیائی ہے اور بری راہ ہے۔

2: بغاء

بغی کے معنی حدسے تجاوز کرنا۔ نافرمانی کرنا، دراز دستی کرنا ہیں۔ اور باغت الامة بغاء کے معنی لونڈی کا زنا کرنا ہے اور بغی کے معنی زنا کار فاحشہ عورت کے ہیں (منجد) یعنی بغاء کا لفظ یا تو لونڈی کے زنا سے مخصوص ہے یا پھر پیشہ ور بد کار عورت یعنی کنجری کے لیے جو دوسروں میں زانیہ مشہور ہو چکی ہو۔ قرآن ان دونوں معنوں کی تائید کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَلَا تُكۡرِهُوۡا فَتَيٰتِكُمۡ عَلَى الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّـتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا (سورۃ النور آیت 33)
اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن (یا حفاطتِ نکاح میں) رہنا چاہتی ہیں
ایک دوسرے مقام پر یہود حضرت مریم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
يٰۤاُخۡتَ هٰرُوۡنَ مَا كَانَ اَبُوۡكِ امۡرَاَ سَوۡءٍ وَّمَا كَانَتۡ اُمُّكِ بَغِيًّا‌ (سورۃ مریم آیت 28)
اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا باپ ہی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔

3: سافح

سفح کے معنی خون یا پانی بہانا اور سافح کے معنی زنا کرنا ہیں (منجد) اور ابن الفارس کے الفاظ میں صب الماء بلا عقد نکاح یعنی نکاح کے عقد کے بغیر زنا کرنا ۔گویا زنا اور سافح میں فرق یہ ہے کہ اس میں تکرار پایا جاتا ہے۔ اور قرآن کریم نے محصنین کے مقابلے میں مسافحین کا لفظ استعمال کر کے اس کی تائید کر دی ہے۔ تو سافح کے معنی ہماری زبان میں "بطور داشتہ رکھنا" ہیں اور مسافح بمعنی ایسی عورت اور مرد ہیں جن کے آپس میں علانیہ تعلقات استوار ہوں۔ آشنا کا لفظ بھی آج کل اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَانكِحُوۡهُنَّ بِاِذۡنِ اَهۡلِهِنَّ وَاٰتُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ مُحۡصَنٰتٍ غَيۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخۡدَانٍ (سورۃ النساء آیت 25)
پھر ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کر لو۔ اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کر دو بشرطیکہ وہ پاکدامن ہوں۔ نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں۔

4: فاحشة

فحش کے معنی ہر وہ قول یا فعل جو قباحت اور برائی میں حد سے بڑھا ہوا ہو (مف، م ل) اور فاحشہ سے مراد ایسے اقوال و افعال ہیں جو زنا کے قریب لے جاتے ہیں یعنی بے حیائی کے کام اور باتیں اور ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں بارہا استعمال ہوا ہے اور زنا کے لیے فاحشہ مبينة کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے،
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا يَحِلُّ لَـكُمۡ اَنۡ تَرِثُوۡا النِّسَآءَ كَرۡهًا‌ؕ وَلَا تَعۡضُلُوۡهُنَّ لِتَذۡهَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ يَّاۡتِيۡنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ (سورۃ النساء آیت 19)
مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور دیکھنا اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں گھروں میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں تو اور بات ہے۔
اور فاحشہ کا لفظ ایسے بد کاری کے فعل پر آتا ہے جو ابھی ثبوت کا محتاج ہو۔ ارشاد باری ہے
وَالّٰتِىۡ يَاۡتِيۡنَ الۡفَاحِشَةَ مِنۡ نِّسَآٮِٕكُمۡ فَاسۡتَشۡهِدُوۡا عَلَيۡهِنَّ اَرۡبَعَةً مِّنۡكُمۡ‌ۚ فَاِنۡ شَهِدُوۡا فَاَمۡسِكُوۡهُنَّ فِىۡ الۡبُيُوۡتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰٮهُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ يَجۡعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيۡلًا‏ (سورۃ النساء آیت 15)
مسلمانو! تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو اگر وہ ان کی بدکاری کی گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کردے یا اللہ ان کے لئے کوئی اور سبیل پیدا کرے۔

ماحصل:

  • زنا: معروف لفظ ہے۔ غیر مرد اور غیر عورت کا آپس میں بد فعلی کرنا۔
  • بغاء: لونڈی کا بد کاری کرنا یا پیشہ ور عورت کا زنا کا پیشہ۔
  • سافح: غیر مرد اور غیر عورت کا بد کاری کے تعلقات علانیہ استوار رکھنا۔ داشتہ رکھنا۔
  • فاحشة: زنا کے قریب لے جانے والے کاموں اور باتوں یا اس زنا کے الزام کے لیے آتا ہے جو ثبوت کا محتاج ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بدل دینا

کے لیے بدّل، حوّل، غيّر حرّف اور تحرّف ، نکّر اور داول کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: بدّل

بدل معروف لفظ ہے یعنی ایک چیز کے عوض کوئی چیز اور بدّل سے مراد کسی چیز کے بدلے دوسری چیز لے آنا (مف) گویا پہلی چیز مفقود اور اس کی جگہ دوسری چیز آ موجود ہوتی ہے۔

2: حوّل

حول کے معنی ابن فارس کے نزدیک تحرك في دور (یعنی چکر میں حرکت کرنا ہے (م ل) اور کسی چیز کے ارد گرد کو اس کا حول کہتے ہیں اور حوّل کے معنی کسی چیز کو اصلی جگہ سے ہٹا کر کسی دوسری جگہ رکھ دینا ۔ گویا حوّل میں چیز مفقود نہیں ہوتی۔ بلکہ اصل مقام سے ہٹ جاتی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
فَهَلۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِيۡنَۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبۡدِيۡلاً ۚ وَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحۡوِيۡلاً‏ (سورۃ فاطر آیت 43)
سو یہ اگلے لوگوں کی رَوِشِ (عذاب) کے سوا (کسی اور چیز کے) منتظر نہیں ہیں۔ سو آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے، اور نہ ہی اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی پھرنا پائیں گے
اور خدا کا دستور یہ ہے کہ مجرم قوموں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ آیت بالا میں خدا کے دستور میں تبدیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ مجرم قوم پر سزا کی بجائے انعامات ہونے لگیں اور تحویل کا مطلب یہ ہے کہ جرم تو کسی کا ہو اور اس کی سزا دوسرے کو ملے۔

3: غیّر

غیر کے معنی سوا، کوئی دوسرا اور غیّر سے مراد حالت کی تبدیلی ہے۔ غیر میں کوئی چیز نہ مفقود ہوتی ہے اور نہ اپنی جگہ سے ٹلتی ہے بلکہ اس کی حالت یا صورت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے ارشاد باری ہے:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِهِمۡ (سورۃ الرعد آیت 11)
اللہ اس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلے۔
اور اسی آیت کا ترجمہ کسی شاعر نے یوں کیا ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا​
ایک دوسرے مقام پر شیطان اللہ تعالیٰ کو یوں جواب دیتا ہے:
وَّلَاُضِلَّـنَّهُمۡ وَلَاُمَنِّيَنَّهُمۡ وَلَاٰمُرَنَّهُمۡ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَلَاَمُرَنَّهُمۡ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰهِ‌ؕ وَمَنۡ يَّتَّخِذِ الشَّيۡطٰنَ وَلِيًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِيۡنًاؕ‏ (سورۃ النساء آیت 119)
اور ان کو گمراہ کرتا اور انہیں امیدیں دلاتا رہوں گا اور یہ سکھاتا رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیرتے رہیں اور انہیں سمجھاتا رہوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑتے رہیں گے۔ اور جس شخص نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنایا وہ صاف صاف گھاٹے میں رہا۔

4: حرّف

حرف کے بنیادی معنی کسی چیز کے کنارا کے ہیں اور حرّف کے معنی اس کنارہ کو موڑ دینا (مف، م ل) اور حرف کی جمع حروف اور حروف الکلام سے مراد حروف تہجی ہیں۔ اور تحریف الکلم یہ ہے کہ مسلسل عبارت کے کچھ الفاظ کو سیاق و سباق کا خیال نہ رکھ کر اصل مقام کے بجائے دوسرے مقام پر چسپاں کر دینا جس سے کوئی دوسرا مطلب حاصل کیا جا سکے اور اگر کچھ لفظوں کی بجائے دوسرے لفظ داخل کر دئیے جائیں تو یہ تبدیلی ہو گی اور یہود یہ دونوں کام کر لیا کرتے تھے۔ ارشاد باری ہے:
فَبِمَا نَقۡضِهِمۡ مِّيۡثَاقَهُمۡ لَعَنّٰهُمۡ وَجَعَلۡنَا قُلُوۡبَهُمۡ قٰسِيَةً‌ ۚ يُّحَرِّفُوۡنَ الۡـكَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِهٖ‌ۙ وَنَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوۡا بِهٖۚ (سورۃ المائدۃ آیت 13)
پس ان لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا۔ یہ لوگ کلمات کتاب کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں۔ اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی ان کا بھی ایک حصہ فراموش کر بیٹھے
اور تحرّف بمعنی کنارا یا پہلو بدلنا اور تحرّف عنه بمعنی کسی سے مائل ہو کر ایک طرف ہو جانا (منجد) ارشاد باری ہے:
وَمَنۡ يُّوَلِّهِمۡ يَوۡمَٮِٕذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَيِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاۡوٰٮهُ جَهَـنَّمُ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏ (سورۃ الانفال آیت 16)
اور جو شخص جنگ کے روز اس صورت کے سوا کہ لڑائی کے لئے کنارے کنارے چلے یعنی حکمت عملی سے دشمن کو مارے یا اپنی فوج میں جا ملنا چاہے ان سے پیٹھ پھیرے گا تو سمجھو کہ وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گیا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔

5: نکّر

نکر میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (1) اجنبیت اور (۲) ناگواری۔ تنکیر کی ضد تعریف ہے اور منکر کی معروف۔ تنکیر بمعنی کسی کو نہ پہچاننا اور تعریف بمعنی کسی کو پہچاننا۔ اسم نکرہ اور اسم معرفہ مشہور الفاظ ہیں۔ اور منکر یعنی برے کام اور معروف بمعنی بھلے کام اور نکّر کے معنی اسم نکرہ بنانا بھی ہے (منجد) اور کسی چیز کی ہئیت کو اس طرح بدل دینا کہ وہ اچنبھا معلوم ہو۔ ارشاد باری ہے:
قَالَ نَكِّرُوۡا لَهَا عَرۡشَهَا نَـنۡظُرۡ اَتَهۡتَدِىۡۤ اَمۡ تَكُوۡنُ مِنَ الَّذِيۡنَ لَا يَهۡتَدُوۡنَ‏ (سورۃ النمل آیت 41)
سلیمان نے کہا کہ ملکہ کے امتحان عقل کے لئے اسکے تخت کی صورت بدل دو دیکھیں کہ وہ سوجھ رکھتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہے جو سوجھ نہیں رکھتے ۔

6: داول

الدولة والدولة بمعنی گردش کرنا اور دال کی ضد دار ہے۔ دور اور دائرۃ کا لفظ تنگ دستی، بدحالی اور گردش ایام کے لیے آتا ہے۔ اور دولة اور دولۃ برے دنوں سے خوشحالی کے ایام پھرنے کو کہتے ہیں۔ اور داول بمعنی خوشحالی کے دنوں کا ادل بدل کر یا پھیر پھیر کا لانا (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
اِنۡ يَّمۡسَسۡكُمۡ قَرۡحٌ فَقَدۡ مَسَّ الۡقَوۡمَ قَرۡحٌ مِّثۡلُهٗ‌ؕ وَتِلۡكَ الۡاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيۡنَ النَّاسِۚ وَلِيَعۡلَمَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَيَتَّخِذَ مِنۡكُمۡ شُهَدَآءَ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَۙ‏ (سورۃ آل عمران آیت 140)
اگر تمہیں زخم شکست لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے۔ اور یہ ایام زمانہ ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں۔ اور اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جدا کر دے اور تم میں سے بعض کو شہید بنائے اور اللہ بے انصافوں کو پسند نہیں کرتا۔

ماحصل:

  • بدّل: ایک چیز کو مفقود کرنا اور اس کی جگہ دوسری لانا۔
  • تحویل: کسی چیز کو اس کے اصل مقام کی بجائے دوسری جگہ کر دینا۔
  • تغییر: کسی چیز کی حالت یا صورت میں تبدیلی لانا۔
  • تحریف: کسی مسلسل عبارت یا تحریر میں یا اس کے مفہوم میں تبدیلی کرنا۔
  • نکّر: روپ بدل دینا۔
  • داول: ادل بدل کرنا اور بہتر حالت کی طرف لانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بدلہ

کے لیے بدل ، ب، عدل، اجر، جزا، ثَوَابِ، عِقَابِ ، وَبَال، كفارَة ، قصاص، فدیۃ اور دیت (ودی) کے الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوتے ہیں۔

1: بدل

بمعنی ایک چیز کے بجائے دوسری چیز لانا (مف) اور یہ کم بھی ہو سکتا ہے زیادہ بھی اچھا بھی اور برا بھی ، اس جیسا بھی اور اس کے علاوہ بھی۔ گویا بدلہ کے لیے یہ لفظ عام ہے۔ ہم یہاں صرف دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں:
ارشاد باری ہے:
وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰۤٮِٕكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاَدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ كَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّهٖؕ اَفَتَـتَّخِذُوۡنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗۤ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِىۡ وَهُمۡ لَـكُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِيۡنَ بَدَلاً‏ (سورۃ الکہف آیت 50)
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا وہ جنات میں سے تھا تو اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہو گیا۔ کیا تم اسکو اور اسکی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ اور شیطان کی دوستی ظالموں کے لئے اللہ کی دوستی کا برا بدل ہے۔
اِلَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحًـا فَاُولٰٓٮِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمۡ حَسَنٰتٍ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‏ (سورۃ الفرقان آیت 70)
مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے

2: ب

ایک چیز کے عوض دوسری بالکل ایسی ہی چیز کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَكَتَبۡنَا عَلَيۡهِمۡ فِيۡهَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِۙ وَالۡعَيۡنَ بِالۡعَيۡنِ وَالۡاَنۡفَ بِالۡاَنۡفِ وَالۡاُذُنَ بِالۡاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّۙ (سورۃ المائدۃ آیت 45)
اور ہم نے ان لوگوں کے لئے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت

3: عدل

جبکہ یہ بدلہ اصل چیز کے متوازن اور مناسب ہو۔ (تفصیل "انصاف کرنا" میں دیکھیے) ارشاد باری ہے
وَاتَّقُوۡا يَوۡمًا لَّا تَجۡزِىۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَيۡـًٔـا وَّلَا يُقۡبَلُ مِنۡهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤۡخَذُ مِنۡهَا عَدۡلٌ وَّلَا هُمۡ يُنۡصَرُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 48)
اوراس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے اور نہ لوگ کسی اور طرح مدد حاصل کرسکیں۔

4: اجر

اجر اور اجرۃ وہ بدلہ ہے جو پہلے عہد و پیمان سے تعین ہو چکا ہو یا بوقت ضرورت آجر بدلہ کا اعلان کرے اور اجیر اس کو قبول کر کے کام شروع کر دے۔ یہ جزائے عمل ہے۔ اور عموماً نفع مند بدلہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اجر کا لفظ دینی اور دنیوی دونوں طرح کے بدلہ کے لیے آتا ہے لیکن اجرت کا لفظ عموماً دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے۔ اور اجر کام لینے والے کو اور آجیر کام دینے والے خدمت گار یا اجرت وصول کرنے والے کو کہتے ہیں (مف) اور استاجر معنی کس کو مزدور یا نوکر رکھنا ۔اجر کا استعمال دینی و دنیوی دونوں صورتوں میں قرآن کریم میں مذکور ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَلَاَجۡرُ الۡاٰخِرَةِ خَيۡرٌ لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَكَانُوۡا يَتَّقُوۡنَ (سورۃ یوسف آیت 57)
اور جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے رہے انکے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے۔
قَالَ اِنِّىۡۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اُنۡكِحَكَ اِحۡدَى ابۡنَتَىَّ هٰتَيۡنِ عَلٰٓى اَنۡ تَاۡجُرَنِىۡ ثَمٰنِىَ حِجَجٍ‌ۚ فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِكَ‌ۚ وَمَاۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَيۡكَ‌ؕ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ (سورۃ القصص آیت 27)
انہوں نے موسٰی سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کو تم سے بیاہ دوں اس عہد پر کہ تم آٹھ برس میری خدمت کرو پھر اگر دس سال پورے کر دو تو وہ تمہاری طرف سے احسان ہو گا اور میں تم پر تکلیف ڈالنی نہیں چاہتا۔ تم مجھے ان شاء اللہ نیک لوگوں میں پاؤ گے۔

5: جزاء

کے معنی کافی ہونا اور کفایت کرنا (م ل) اور جزاء وہ بدلہ ہے کہ جو کام کی نسبت سے کسی صورت کم نہ ہو۔ خواہ وہ کام اور اس کا بدلہ اچھا ہو یا برا۔ اور اس میں عہد و پیمان اور تعین بھی شرط نہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَمَا تُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَۙ‏ (سورۃ الصافات آیت 39)
اور تمہیں (کوئی) بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر صرف اسی کا جو تم کیا کرتے تھے

6: ثواب

ثوب کے بنیادی معنی دوبارہ آنا اور واپس آنا کے ہیں اور یثوب الَيْهِ النَّاس کے معنی جس شخص کے پاس لوگ بکثرت آتے جاتے ہوں۔ قرآن میں یہ لفظ ان معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَاِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَيۡتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمۡنًاؕ (سورۃ البقرۃ آیت 125)
اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا
علی ہذا القیاس انسان کو اس کے اعمال کا جو بدلہ لوٹتا ہے اسے ثواب کہا جاتا ہے (مف) گو اس کا استعمال خیر و شر دونوں طرح ہو سکتا ہے۔ تاہم عموماً اچھے اعمال کے اچھے بدلہ کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اور یہ قرآن میں ہے:
فَاٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ ثَوَابَ الدُّنۡيَا وَحُسۡنَ ثَوَابِ الۡاٰخِرَةِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ (سورۃ آل عمران آیت 148)
تو اللہ نے ان کو دنیا میں بھی بدلہ دیا اور آخرت میں بھی بہت اچھا بدلہ دے گا اور اللہ نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔
اس آیت میں بطور طنز ثواب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
هَلۡ ثُوِّبَ الۡكُفَّارُ مَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ (سورۃ المطففین آیت 36)
سو کیا کافروں کو اس (مذاق) کا پورا بدلہ دے دیا گیا جو وہ (مسلمانوں سے) کیا کرتے تھے‏

7: عقاب

عقاب کا لفظ برے کام کے برے بدلہ کے لیے آتا ہے (تفصیل "انجام" میں دیکھیے) یعنی سزا یا عذاب کے معنوں میں آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَاتَّقُوۡا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ (سورۃ البقرۃ آیت 196)
اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے‏

8: کفّارۃ

کفر بمعنی چھپانا (تفصیل "انکار کرنا" میں دیکھیے) اور تکفیر بمعنی گناہ کو چھپانا اور کفارۃ کے معنی وہ نیکی جو گناہ کے بدلے میں کی جائے اور اس سلسلہ میں جو صدقہ یا روزہ رکھا جائے وہ کفارة کہلاتا ہے۔

9: وبال:

وبل کے بنیادی معنی میں شدت اور ثقل کا مفہوم پایا جاتا ہے (مف، منجد) اور اس کے معنی لاٹھی سے مارتے جانا ہے۔ اور وبال کا لفظ کسی برے کام کی سخت سزا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ سزا خواہ دنیا میں ملے یا آخرت میں لیکن اکثر دنیوی گرفت یا مکافات عمل کی صورت میں ملتا ہے۔ اب مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
وبال بصورت کفارہ:
اَوۡ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِيۡنَ اَوۡ عَدۡلُ ذٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوۡقَ وَبَالَ اَمۡرِهٖ‌ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 95)
یا کفارہ دے اور وہ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے یا اسکے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کام کی سزا کا مزا چکھے۔
کَمَثَلِ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ قَرِيۡبًا‌ ذَاقُوۡا وَبَالَ اَمۡرِهِمۡ‌ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‌ۚ‏ (سورۃ الحشر آیت 15)
(اُن کا حال) اُن لوگوں جیسا ہے جو اُن سے پہلے زمانۂ قریب میں ہی اپنی شامتِ اعمال کا مزہ چکھ چکے ہیں (یعنی بدر میں مشرکینِ مکہ، اور یہود میں سے بنو نضیر، بنو قینقاع و بنو قریظہ وغیرہ)، اور ان کے لئے (آخرت میں بھی) دردناک عذاب ہے

10: قصاص:

قصّ کا بنیادی معنی کسی چیز کا تتبع کرنا ہے (م ل) اور قصاص کے معنی کسی کے برے فعل کا بدلہ دینا ہے (منجد) اور قصاص بالعموم انسانی خون اور اس کے اعضا و جوارح سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کی مثال ایسی عنوان میں ب کے تحت گزر چکی ، تاہم یہ ضروری نہیں۔ ارشاد باری ہے:
الشَّهۡرُ الۡحَـرَامُ بِالشَّهۡرِ الۡحَـرَامِ وَالۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ (سورۃ البقرۃ آیت 194)
ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔

11: فدیۃ

فداء کے معنی کسی کی طرف سے کچھ مال وغیرہ دے کر اسے کسی مصیبت سے بچا لینا ہے (مف) صاحب منجد کے نزدیک مال وغیرہ دے کر قید سے چھڑانا ہے۔ اور یہ رقم جو بطور معاوضہ دی جائے فدیۃ ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَاِنۡ يَّاۡتُوۡكُمۡ اُسٰرٰى تُفٰدُوۡهُمۡ وَهُوَ مُحَرَّمٌۡ عَلَيۡڪُمۡ اِخۡرَاجُهُمۡ (سورۃ البقرۃ آیت 85)
اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہو کر آئیں تو بدلہ دے کر ان کو چھڑا بھی لیتے ہو حالانکہ ان کا نکال دینا ہی تم کو حرام تھا۔

12: دیۃ

(ودی) ودی یدی ودیا ودیۃ بمعنی قاتل یا اس کے لواحقین کا مقتول کے لواحقین کو خون بہا ادا کرنا۔ اور اودی بمعنی کسی کا ناجائز خون بہانا اور دیۃ وہ مال ہے جو مقتول کی جان کے عوض قاتل یا اس کے ورثاء کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ (مف) ارشاد باری ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ اَنۡ يَّقۡتُلَ مُؤۡمِنًا اِلَّا خَطَـــًٔا‌ۚ وَمَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـــًٔا فَتَحۡرِيۡرُ رَقَبَةٍ مُّؤۡمِنَةٍ وَّدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَهۡلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ يَّصَّدَّقُوۡا‌ؕ (سورۃ النساء آیت 92)
اور کسی مومن کو شایاں نہیں کہ دوسرے مومن کو مار ڈالے مگر غلطی سے ایسا کر بیٹھے۔ اور جو غلطی سے بھی مومن کو مار ڈالے تو وہ ایک تو ایک مسلمان غلام آزاد کر دے اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے۔ مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں

ماحصل:

  • بدل: بدلہ کے لیے عام لفظ، کم ہو یا زیادہ، اچھا ہو یا برا۔
  • ب: بالکل ویسی ہی چیز سے بدلہ دینا۔
  • عدل: اصل چیز کے متوازن اور متناسب بدلہ۔
  • اجر: طے شدہ بدلہ، خدمت کا عوضانہ۔
  • جزاء: وہ بدلہ جو کسی صورت کم نہ ہو۔
  • ثواب: اچھے کام کا اچھا بدلہ۔
  • عقاب: برے کام کا برا بدلہ۔
  • وبال: مکافات عمل کی صورت میں شدید گرفت۔
  • کفارۃ: گناہ کے دور کرنے کے لیے عوض یا بدلہ۔
  • قصاص: انسان خون ناحق اور اعضا و جوارح کا بدلہ۔
  • فدیۃ: کسی کو مصیبت یا قید سے چھڑانے کا عوضانہ۔
  • دیۃ: قاتل یا اس کے لواحقین کا مقتول کے لواحقین کو خون بہا دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بدلہ دینا

کے لیے جزاء، ثوّب اور اثاب، عذّب اور دان کے الفاظ آئے ہیں۔

1، 2: جزاء، ثوّب

اس کا بیان تو "بدلہ" (جزا) اور اثاب اور ثوّب کا بھی "بدلہ" میں گزر چکا ہے۔ باقی عذّب اور دان کی تفصیل یہ ہے:

3: عذّب

عذب بمعنی سخت پیاس کی وجہ سے کھانا چھوڑ دینا اور عذب کے معنی میٹھا اور خوشگوار مشروب یا کھانا اور ماء عذب کے معنی ٹھنڈا اور خوشگوار پانی اور اعذب بمعنی میٹھے پانی پر پہنچنا (مف، منجد) لیکن یہ لفظ باب تفعیل میں جا کر اپنے بنیادی معنی چھوڑ دیتا ہے اور عذّب بمعنی سخت تکلیف یا سزا دینا یا عذاب دینا ہے۔ ابو ہلال اس کی تعریف الالم المستقرّ یعنی ثابت و برقرار رہنے والا دکھ سے کرتےہیں۔ (فق ل 198) ارشاد باری ہے:
مَّنِ اهۡتَدٰى فَاِنَّمَا يَهۡتَدِىۡ لِنَفۡسِهٖ‌ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيۡهَا‌ؕ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰى‌ؕ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيۡنَ حَتّٰى نَبۡعَثَ رَسُوۡلاً‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 15)
جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے لئے اختیار کر تا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہو گا اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔

4: دان

الدین کا لفظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ مختصراً اس کے چار معنی ہیں (1) مکمل حاکمیت، (2) مکمل عبودیت اور بندگی۔ قرآن میں ہے:
اَلَا لِلّٰهِ الدِّيۡنُ الۡخَالِصُ‌ؕ (سورۃ الزمر آیت 3)
(لوگوں سے کہہ دیں:) سُن لو! طاعت و بندگی خالصۃً اﷲ ہی کے لئے ہے
تو اس میں یہ دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں۔
(3) قانون جزا و سزا بھی اور (4) اس قانون کے اچھے اور برے اعمال کی جزا اور سزا دینا بھی۔
مٰلِكِ يَوۡمِ الدِّيۡنِؕ‏ (سورۃ الفاتحہ)
انصاف کے دن کا حاکم۔

میں یہ چوتھا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:
فَلَوۡلَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ غَيۡرَ مَدِيۡنِيۡنَۙ‏ تَرۡجِعُوۡنَهَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ (سورۃ الواقعہ آیت 86، 87)
پھر کیوں نہیں (ایسا کر سکتے) اگر تم کسی کی مِلک و اختیار میں نہیں ہو کہ اس (رُوح) کو واپس پھیر لو اگر تم سچّے ہو

ماحصل:

  • جزا: پورا پورا بدلہ دینے کے لیے۔
  • اثاب اور ثوب: عموماً اچھے کام کے اچھے بدلہ کے لیے۔
  • عذّب: سخت سزا کے لیے۔
  • دان: جزا و سزا میں حاکم و محکوم کے پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بدلہ لینا

کے لیے عاقب، انتقم اور انتصر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عاقب

عقب کے معنی ایڑی اور پیچھے اور عقب کے معنی پیچھے لگنا اور عاقب کے معنی کسی کے پیچھے لگ کر اس کا مواخذہ کرنا اور سزا دینا۔ (منجد) ارشاد باری ہے:
وَاِنۡ عَاقَبۡتُمۡ فَعَاقِبُوۡا بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبۡتُمۡ بِهٖ‌ۚ وَلَٮِٕنۡ صَبَرۡتُمۡ لَهُوَ خَيۡرٌ لِّلصّٰبِرِيۡنَ‏ (سورۃ النحل آیت 126)
اور اگر تم انکو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی اور اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔

2: انتقم

نقم کے معنی کسی چیز کو برا سمجھنا اور اس میں عیب دھرنا ہے۔ (مف، م ل) قرآن میں ہے:
وَمَا نَقَمُوۡا مِنۡهُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ يُّؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَمِيۡدِۙ‏ (سورۃ البروج آیت 8)
اور انہیں ان (مومنوں) کی طرف سے اور کچھ (بھی) ناگوار نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو غالب (اور) لائقِ حمد و ثنا ہے
اور انتقام کے معنی کسی کو اس کے ناپسندیدہ کام پر غضبناک ہو کر سزا دینا یا بدلہ لینا ہے اور ابو ہلال عسکری کے نزدیک انتقام کی ضد انعام اور انتقام کا معنی انعام کا سلب کر لینا ہے۔ (فق ل 199) ارشاد باری ہے:
وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعۡرَضَ عَنۡهَا‌ؕ اِنَّا مِنَ الۡمُجۡرِمِيۡنَ مُنۡتَقِمُوۡنَ (سورۃ السجدۃ آیت 22)
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جسے اس کے رب کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جائے پھر وہ اُن سے منہ پھیر لے، بیشک ہم مُجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں‏

3: انتصر

نصر کے معنی ظلم اور زیادتی دور کرنے کے لیے کسی کی مدد کرنا (محیط) اور انتصر کے معنی کسی پر ظلم و زیادتی اور دفع مضرت کے لیے بدلہ لینا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَصَابَهُمُ الۡبَغۡىُ هُمۡ يَنۡتَصِرُوۡنَ‏ (سورۃ الشوری آیت 39)
اور وہ لوگ کہ جب انہیں (کسی ظالم و جابر) سے ظلم پہنچتا ہے تو (اس سے) بدلہ لیتے ہیں
ایک اور مقام پر حضرت نوح علیہ السلام اپنے رب سے فریاد کرتےہیں:
فَدَعَا رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانْـتَصِرۡ‏ (سورۃ القمر آیت 10)
سو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں (اپنی قوم کے مظالم سے) عاجز ہوں پس تو انتقام لے

ماحصل:

  • عاقب: کسی کے پیچھے لگ کر اس کے کیے کا بدلہ لینا۔
  • انتقام: کسی کو اس کے برے اعمال پر غضبناک ہو کر سزا دینا یا بدلہ لینا یا نعمت کا چھین لینا۔
  • انتصار: کسی ظلم و زیادتی کا بدلہ لینا۔ خواہ مظلوم خود لے یا اس کی مدد کرتے ہوئے کوئی دوسرا بدلہ لے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بد مست ہونا

کے لیے نزف، غال (غول) اور سکر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: نزف

بمعنی کسی چیز کا بتدریج ختم ہو جانا۔ نزف الماء البئر بمعنی بتدریج کنویں سے سارا پانی کھینچ لینا اور نزف الماء بمعنی بتدریج پانی کا ختم ہو جانا۔ اسی طرح نزف دمعہ بمعنی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر ختم ہو گئے یا خشک ہو گئے۔ اور نزف الرجل کسی شخص کی عقل کا بتدریج ختم ہو جانا، بے عقل ہونا یا بد مست ہونا ہے۔ اس کی وجہ خواہ کچھ ہو (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
لَّا يُصَدَّعُوۡنَ عَنۡهَا وَلَا يُنۡزِفُوۡنَۙ‏ (سورۃ الواقعہ آیت 19)
انہیں نہ تو اُس (کے پینے) سے دردِ سر کی شکایت ہوگی اور نہ ہی عقل میں فتور (اور بدمستی) آئے گی

2: غال

(غول) الغول بمعنی گونا گوں شکلیں اختیار کرنے والا جن اور جادوگر۔ چھلاوہ ، چڑیل (مف، منجد) اور الغول بمعنی مدہوشی، سرود (منجد) اور غال بمعنی کسی کو یوں ہلاک کر دینا کہ اس کا پتہ بھی نہ چل سکے (مف) گویا غول سے ایسی مدہوشی اور بد مستی مراد ہے جس کی وجہ معلوم نہ ہو سکے۔ ارشاد باری ہے:
لَا فِيۡهَا غَوۡلٌ وَّلَا هُمۡ عَنۡهَا يُنۡزَفُوۡنَ‏ (سورۃ الصافات آیت 47)
نہ اس میں کوئی ضرر یا سَر کا چکرانا ہوگا اور نہ وہ اس (کے پینے) سے بہک سکیں گے

3: سکر

سکر کا استعمال عموماً شراب کی وجہ سے مستی اور عقل ضائع ہو جانے پر ہوتا ہے اور سکر بمعنی ہر نشہ آور چیز ہے۔ یعنی جب کسی بھی چیز کی مستی، خواہ غلبہ عشق ہو یا موت کی سختی کی وجہ سے عقل زائل ہو جائے تو سکر کا استعمال ہو گا۔ سکرات الموت مشہور لفظ ہے۔ ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنۡـتُمۡ سُكَارٰى (سورۃ النساء آیت 43)
اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ

ماحصل:

  • نزف: بتدریج عقل کا زائل ہونا، وجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن معلوم ہو۔
  • غول: ایسی بد مستی جس کی وجہ معلوم نہ ہو سکے۔
  • سکر: ایسی فوری بد مستی جس کی وجہ شراب ہو۔ تاہم یہ لفظ غلبہ عشق کا دہشت کے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے۔
بر انگیختہ کرنا کے لیے دیکھیے "ابھارنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

برا – برائی

اور برا کے لیے بئس، شرّ اور ساء اور اس کے مشتقات اور قبح کے الفاظ آئے ہیں۔

1: بئس

بمعنی برا، کلمہ ذم، فعل ماضی جامد ہے۔ کسی ناگوار کام یا بری بات کی مذمت کے لیے استعمال ہوتا ہے (منجد) اور اس کی ضد نعم ہے۔ یعنی اچھا، واہ واہ، کیا خوب، جو ہر قسم کی مدح کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتۡهُ الۡعِزَّةُ بِالۡاِثۡمِ‌ فَحَسۡبُهٗ جَهَنَّمُ‌ؕ وَلَبِئۡسَ الۡمِهَادُ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 206)
اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے خوف کر تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے سو اس کو جہنم کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔

2: شرّ

ہر وہ چیز جس سے ہر کوئی کراہت کرے یا اس سے نقصان پہنچے اور اس کی ضد خیر ہے یعنی سب کے لیے مرغوب اور پسندیدہ ہو (مف) اور شر کا لفظ برا، برائی اور تکلیف سب معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور شرارہ آگ کی چنگاری کو کہتے ہیں جس کی جمع شرر ہے۔
اور شرارت ہر وہ در پردہ فعل ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ اور برے آدمی کو شریر کہتے ہیں اور اس کی جمع اشرار آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـًٔـا وَّهُوَ خَيۡرٌ لَّـکُمۡ‌ۚ وَعَسٰۤى اَنۡ تُحِبُّوۡا شَيۡـًٔـا وَّهُوَ شَرٌّ لَّـكُمۡؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 216)
مسلمانو تم پر اللہ کے رستے میں لڑنا فرض کر دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار تو ہو گا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو۔ اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو اور ان باتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
دوسرے مقام پر ہے:
وَقَالُوۡا مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالاً كُنَّا نَعُدُّهُمۡ مِّنَ الۡاَشۡرَارِؕ‏ (سورۃ ص آیت 62)
اور وہ کہیں گے: ہمیں کیا ہوگیا ہے ہم (اُن) اشخاص کو (یہاں) نہیں دیکھتے جنہیں ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے

3: ساء

بمعنی قبیح ہونا (منجد) بد صورت یا نا گوار ہونا، جو ظاہری بد صورتی اور معنوی خرابی دونوں کے لیے آتا ہے۔ اور اس کی ضد حسن ہے۔ اسی طرح سیئات (برے کام) کی ضد حسنات آتی ہے۔ ساء سے صرف ماضی اور مضارع کے صیغے آتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
معنوی برائی کے لیے:
وَهُمۡ يَحۡمِلُوۡنَ اَوۡزَارَهُمۡ عَلٰى ظُهُوۡرِهِمۡ‌ؕ اَلَا سَآءَ مَا يَزِرُوۡنَ‏ (سورۃ الانعام آیت 31)
اور وہ اپنے اعمال کے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہونگے۔ دیکھو جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں بہت برا ہے۔
ظاہری بدصورتی کے لیے :
فَلَمَّا رَاَوۡهُ زُلۡفَةً سِیْٓــَٔتۡ وُجُوۡهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَقِيۡلَ هٰذَا الَّذِىۡ كُنۡتُمۡ بِهٖ تَدَّعُوۡنَ‏ (سورۃ ملک آیت 27)
پھر جب اس (دن) کو قریب دیکھ لیں گے تو کافروں کے چہرے بگڑ کر سیاہ ہو جائیں گے، اور (ان سے) کہا جائے گا: یہی وہ (وعدہ) ہے جس کے (جلد ظاہر کیے جانے کے) تم بہت طلب گار تھے
اور ساء سے فعل متعدی اساء کے معنی خراب کرنا اور بگاڑنا، برا بنا دینا کے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
اِنۡ اَحۡسَنۡتُمۡ اَحۡسَنۡتُمۡ لِاَنۡفُسِكُمۡ‌ وَاِنۡ اَسَاۡتُمۡ فَلَهَا‌ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَةِ لِيَسُـوْء ا وُجُوۡهَكُمۡ وَلِيَدۡخُلُوۡا الۡمَسۡجِدَ كَمَا دَخَلُوۡهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّلِيُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِيۡرًا‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 7)
اگر تم نیکوکاری کرو گے تو اپنی جانوں کے لئے کرو گے اور اگر اعمال بد کرو گے تو ان کا وبال بھی تمہاری ہی جانوں پر ہو گا پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے پھر اپنے بندے بھیجے تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں۔ اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد بیت المقدس میں داخل ہو گئے تھے اسی طرح پھر اس میں داخل ہو جائیں اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے تباہ کر دیں۔
اور سوء بمعنی برا، بری، برائی جو کسی چیز کے اندر ہو۔ امر سوء بمعنی بد کار آدمی اور سوء (صفت) بمعنی عیب، بُرا کام اور برائی کے معنوں میں آتے ہیں۔ اور مسیء بمعنی برے کام کرنے والا بد کار، بد کردار۔ ارشاد باری ہے:
وَمَا يَسۡتَوِىۡ الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُۙ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الۡمُسِىۡٓءُؕ قَلِيۡلاً مَّا تَتَذَكَّرُوۡنَ‏ (سورۃ مومن آیت 58)
اور اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے سو (اسی طرح) جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے (وہ) اور بدکار بھی (برابر) نہیں ہیں۔ تم بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو

4: قبح

بمعنی قول یا فعل یا شکل کا برا ہونا اور قبیح بمعنی برا، بد نما (منجد) یہ لفظ عموماً ظاہری حالت کی برائی کے لیے آتا ہے اور قبیح معنی بد حال (مف) بمعنی بدصورت یا بد نما ہونا (منجد)
ارشاد باری ہے:
وَاَتۡبَعۡنٰهُمۡ فِىۡ هٰذِهِ الدُّنۡيَا لَـعۡنَةً‌ ۚ وَيَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ هُمۡ مِّنَ الۡمَقۡبُوۡحِيۡنَ (سورۃ قصص آیت 42)
اور ہم نے ان کے پیچھے اس دنیا میں (بھی) لعنت لگا دی اور قیامت کے دن (بھی) وہ بدحال لوگوں میں (شمار) ہوں گے‏

ماحصل:

  • بئس: کلمہ ذم ہے اور اس کی ضد نعم ہے۔
  • شرّ: ہر وہ چیز جس سے انسان کراہت کرے۔
  • ساء: ظاہری اور معنوی بد صورتی کے لیے آتا ہے اور اس کی ضد حسن ہے۔
  • قبح: بد حالی یا بد صورت ہونا۔ قول، فعل اور شکل کی برائی کے لیے آتا ہے۔ عموماً ظاہری طور پر استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

برا بھلا کہنا

کے لیے ذم، عتب، لام (لوم) سبّ اور ثرّب کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ذمّ

ضد مدح بمعنی بُرائی کرنا، عیب گیری کرنا، اذمّ بمعنی حقیر جاننا اور تذمّم بمعنی کسی سے خود بچنا اور اسے اپنے لیے ننگ و عار سمجھنا (منجد) اور ذمام بمعنی عزت اور ذمّمہ یعنی اس نے اس کی خوب بے عزتی کی۔(م - ق ) گویا ذمّ کا لفظ ایسے کام پر عیب گیری یا بے عزتی کرنے کے لیے آتا ہے جس کا کرنا کرنے والے کے لیے باعث تنگ و عار ہو ۔ ارشاد باری ہے:
مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡعَاجِلَةَ عَجَّلۡنَا لَهٗ فِيۡهَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِيۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَهٗ جَهَنَّمَ‌ۚ يَصۡلٰٮهَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 18)
جو شخص دنیا کی آسودگی کا خواہشمند ہو تو ہم اس میں سے جسے چاہتے ہیں اور جتنا چاہتے ہیں جلد دے دیتے ہیں۔ پھر اسکے لئے جہنم کو ٹھکانہ مقرر کر رکھا ہے جس میں وہ نفریں سن کر اور درگاہ الٰہی سے راندہ ہو کر داخل ہو گا۔

2: عتب

بمعنی سرزنش کرنا، خفگی کرنا۔ (یہ لفظ لغت اضداد سے ہے)۔ عاتب کے معنی ملامت کرنا اور غصہ کرنا بھی ہے اور ناز سے خطاب کرنا بھی ۔ اور اعتب کے معنی سبب ناراضگی کو دور کرنا اور استعبب کسی کو راضی کر لینا اور روٹھے ہوئے کو منا لینا (منجد) گویا عتاب ایسی میٹھی میٹھی سرزنش اور ملامت کو کہتے ہیں جس کا مقصد بالآخر رضامند ہونا اور من جانا ہو۔ اور عتاب کا استعمال دوستی اور ہمدردی کے تعلقات ضائع کرنے پر ہوتا ہے (فق ل ۳۹) ارشاد باری ہے۔
فَاِنۡ يَّصۡبِرُوۡا فَالنَّارُ مَثۡوًى لَّهُمۡ‌ؕ وَاِنۡ يَّسۡتَعۡتِبُوۡا فَمَا هُمۡ مِّنَ الۡمُعۡتَبِيۡنَ‏ (سورۃ حم سجدۃ آیت 24)
اب اگر وہ صبر کریں تب بھی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور اگر وہ (توبہ کے ذریعے اﷲ کی) رضا حاصل کرنا چاہیں تو بھی وہ رضا پانے والوں میں نہیں ہوں گے

3: لام

بمعنی کسی کام کو برا سمجھ کر اس کے کرنے والے کو برا بھلا کہنا (مف) خواہ یہ فعل بذات خود برا نہ ہو اور بمعنی انسان کے کسی فعل کے نتیجہ پر اسے تنبیہ کرنا (فق ل ۲۹) ارشاد باری ہے:
يُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوۡنَ لَوۡمَةَ لَآٮِٕمٍ (سورۃ المائدۃ آیت 54)
اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔

4: سبّ

بمعنی مغلظات بکنا اور فحش گالیاں دینا (مف) اور سبّب بمعنی بہت زیادہ گالی دینا۔ (منجد) ارشاد باری ہے:
وَلَا تَسُبُّوۡا الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدۡوًۢا بِغَيۡرِ عِلۡمٍ (سورۃ انعام آیت 108)
اور جن لوگوں کو یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں اللہ کو بے ادبی سے بے سمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں۔
5: ثرّب
کسی کے برے فعل پر اسے سرزنش اور زجر و توبیخ یا ڈانٹ ڈپٹ کرنا (مف) قرآن میں ہے:
قَالَ لَا تَثۡرِيۡبَ عَلَيۡكُمُ الۡيَوۡمَ‌ؕ يَغۡفِرُ اللّٰهُ لَـكُمۡ‌ وَهُوَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِيۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 92)
یوسف نے کہا کہ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تم کو معاف کرے۔ اور وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

ماحصل:

  • ذمّ: عیب گیری کر کے کسی کی بے عزتی کرنا۔
  • عتب: ناراضگی دور کرنے کے لیے میٹھے انداز میں خفگی کا اظہار کرنا۔
  • لام: کسی کو اس کے کسی فعل پر برا بھلا کہنا۔ اس کے کام کے نتیجہ پر تنبیہ کرنا۔
  • سبّب: فحش مغلظات بکنا۔
  • ثرّب: ملامت کے علاوہ ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔
 
Last edited:

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

برا لگنا

کے لیے نکر اور نقم کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: نکر

نکر میں بنیادی طور پر دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ (1) اجنبیت (۲) ناگواری ۔ اور انکر کے معنی انکار کرنا بھی ہے اور اچنبھا سمجھنا بھی اور منکر کے معنی ہر وہ بات جو عام معاشرہ کی نگاہوں میں ناپسندیدہ ہو یا جسے شریعت نے نا پسندیدہ قرار دیا ہو۔ اور منکر بمعنی ایسی بری بات جو ہر ایک کو ناگوار ہو اور بُری لگے۔ قرآن میں ہے:
فَتَوَلَّ عَنۡهُمۡ‌ۘ يَوۡمَ يَدۡعُ الدَّاعِ اِلٰى شَىۡءٍ نُّكُرٍۙ‏ (سورۃ قمر آیت 6)
سو آپ اُن سے منہ پھیر لیں، جس دن بلانے والا (فرشتہ) ایک نہایت ناگوار چیز (میدانِ حشر) کی طرف بلائے گا

2: نقم

نقم اور نقم (ق زیر کے ساتھ) بمعنی کسی چیز کو برا سمجھنا (مف) اور بمعنی مکروہ جاننا، عیب لگانا، ملامت کرنا، سزا دینا (منجد)، گویا نقمة ایسی ناگوار بات کو کہتے ہیں کہ کسی کو بری لگے، کسی کو نہ لگے۔ خواہ یہ بات فی الواقعہ ناگوار ہو یا نہ ہو۔ پھر وہ اس کے انتقام پر بھی اتر آئے اور نقمة بمعنی سزا، عذاب یا بدلہ بھی ہے۔ قرآن میں ہے:
وَمَا نَقَمُوۡا مِنۡهُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ يُّؤۡمِنُوۡا بِاللّٰهِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَمِيۡدِۙ‏ (سورۃ بروج آیت 8)
اور انہیں ان (مومنوں) کی طرف سے اور کچھ (بھی) ناگوار نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو غالب (اور) لائقِ حمد و ثنا ہے

ماحصل:

  • نکر: ہر وہ بات جو عام لوگوں کی نظروں میں ناگوار ہو اور اچنبھا بھی ہو۔
  • نقم: جو کسی خاص شخص کو بری لگے اور وہ اسے برداشت نہ کر سکے۔ اگر چہ فی الواقعہ بات بری نہ ہو۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

برابر - برابر ہونا – کرنا

کے لیے عدل، سواء، سوّی اور استوی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: عدل

ایسی چیزوں میں برابری کو کہتے ہیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہو یا جن کا ادراک حواس ظاہری سے ہو سکے (مف) انہی حواس ظاہرہ کی بنا پر ہی عدل کو انصاف بھی کہا جاتا ہے۔
ارشاد باری ہے:
اَوۡ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِيۡنَ اَوۡ عَدۡلُ ذٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوۡقَ وَبَالَ اَمۡرِهٖ‌ؕ (سورۃ المائدۃ آیت 95)
یا کفارہ دے اور وہ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے یا اسکے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کام کی سزا کا مزا

2: سواء اور استوی

حالت اور مقدار کی برابری کے لیے آتا ہے (مف- فق ل ۱۲۸) ارشاد باری ہے:
اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ (سورۃ بقرہ آیت 6)
بیشک جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے لئے برابر ہے خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے
دوسرے مقام پر فرمایا:
قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الۡاَعۡمٰى وَالۡبَصِيۡرُۙ اَمۡ هَلۡ تَسۡتَوِى الظُّلُمٰتُ وَالنُّوۡرُۚ (سورۃ رعد آیت 16)
کہو کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہیں؟ یا اندھیرا اور اجالا برابر ہو سکتا ہے؟
اور استوی علی کا معنی کسی سواری پر جم کر بیٹھنا ہے۔
اور مقدار یا حالت کو برابر کرنے کے لیے سوّی کا لفظ آتا ہے۔ درج ذیل آیت میں یہ دونوں الفاظ اکٹھے آ گئے ہیں۔
الَّذِىۡ خَلَقَكَ فَسَوّٰٮكَ فَعَدَلَـكَۙ‏ (سورۃ انفطار آیت 7)
جس نے (رحم مادر کے اندر ایک نطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے (اعضا سازی کے لئے ابتداءً) درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایا
اور سوّی کا لفظ بھی وسیع المفہوم ہے۔ جس میں پورا کرنا، برابر کرنا، درست اور ٹھیک ٹھاک کرنا، سب کچھ آ جاتا ہے۔

ماحصل:

عدل کا تعلق ان چیزوں سے ہے جن میں حواس ظاہرہ سے برابری پیدا کی جا سکے اور سواء حالت اور مقدار میں برابری اور مساوات کو کہتے ہیں۔
 
Top