مترادفات القرآن (ب)

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

برباد ہونا - کرنا (ضائع ہونا - کرنا)

کے لیے ضلّ اور اضلّ ، حبط اور احبط ، بطل اور ابطل اور اضاع کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ضلّ

ضلّ کے معنی کسی چیز کا ضائع ہو کر دوسرے کے حق میں چلا جانا ہے (م ل) یعنی اپنے وجود کو ختم کر کے یا ملیا میٹ کر کے کسی دوسرے وجود میں مدغم ہو جاتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَقَالُوۡٓا ءَاِذَا ضَلَلۡنَا فِىۡ الۡاَرۡضِ ءَاِنَّا لَفِىۡ خَلۡقٍ جَدِيۡدٍ‌ؕ بَلۡ هُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّهِمۡ كٰفِرُوۡنَ‏ (سورۃ سجدہ آیت 10)
اور کہنے لگے کہ جب ہم زمین میں ملیا میٹ ہو جائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے جانے ہی کے قائل نہیں۔
پھر بعض دفعہ یہ لفظ صرف کسی چیز کے وجود کے ختم ہو جانے یا ضائع و برباد ہونے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
قَالُوۡۤا اَيۡنَ مَا كُنۡتُمۡ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ‌ؕ قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا وَشَهِدُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ اَنَّهُمۡ كَانُوۡا كٰفِرِيۡنَ‏ (سورۃ اعراف آیت 37)
تو کہیں گے کہ جنکو تم اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے۔ وہ اب کہاں ہیں؟ وہ کہیں گے کہ وہ ہم سے گم ہو گئے اور اقرار کریں گے کہ بیشک وہ کافر تھے۔
اور ضلّ کا لفظ اگرچہ عام ہے جیسا کہ مندرجہ بالا مثالوں سے ظاہر ہے۔ تاہم اس کا اطلاق عموماً راستہ کھو دینے پر ہوتا ہے اور ضلّ بمعنی راہ گم کر دینا اور صحیح راہ کا پتہ نہ چل سکنا اور اس کی تلاش میں پھرتا ہے۔ ارشاد باری ہے۔
وَوَجَدَكَ ضَآلاًّ فَهَدٰى (سورۃ ضحی آیت 7)
اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ یا- اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان (رہنمائی فرمانے والا) پایا تو اس نے (انہیں آپ کے ذریعے) ہدایت دے دی‏
اور اضلّ کا معنی عموماً کسی دوسرے کو راستہ سے بہکا دیا، بھٹکا دینا اور بہکا کر غلط راستے پر ڈال دینا ہے۔ تاہم یہ لفظ اکارت کرنے یا ضائع کرنے کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعۡمَالَهُمۡ‏ (سورۃ محمد آیت 1)
جن لوگوں نے کفر کیا اور (دوسروں کو) اﷲ کی راہ سے روکا (تو) اﷲ نے ان کے اعمال (اخروی اجر کے لحاظ سے) برباد کر دیئے

2: حبط

بمعنی اکارت جانا ، برباد ہونا ، عمل بیکار ہونا ، خراب ہونا اور حبط دم القتيل بمعنی مقتول کا خون رائیگاں جانا (منجد) یعنی کسی عمل کا بعض دوسرے اسباب کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہ ہونا۔ اچھے اعمال کا برے اعمال کی وجہ سے ضائع ہونا (اور اگر برے اعمال اچھے اعمال کی وجہ سے ختم ہو جائیں تو اس کا نام تکفیر ہے) (فق ل 192) ارشاد باری ہے:
ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهۡدِىۡ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ‌ؕ وَلَوۡ اَشۡرَكُوۡا لَحَبِطَ عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ (سورۃ انعام آیت 88)
یہ اللہ کی ہدایت ہے اس پر اپنے بندوں میں سے جسے چاہے چلائے اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو اعمال وہ کرتے تھے سب ضائع ہو جاتے۔
اور احبط بمعنی اکارت بنا دینا یا برباد اور ضائع کر دینا ہے۔ ارشاد باری ہے:
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ كَرِهُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاَحۡبَطَ اَعۡمَالَهُمۡ‏ (سورۃ محمد آیت 9)
یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اس (کتاب) کو ناپسند کیا جو اﷲ نے نازل فرمائی تو اس نے ان کے اعمال اکارت کر دیئے

3: بطل

باطل کی ضد حق ہے۔ تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے وه باطل ہے (مف) یعنی نا حق اور بے اصل کام کو باطل کہتے ہیں۔ اور بطّل بمعنی کسی چیز کا بے نتیجہ اور بے اثر ہونے کی وجہ سے ضائع ہونا ہے جیسے بد پرہیزی علاج کے فائدہ کو بے اثر کر دیتی ہے یا علاج بیماری کے اثرات کو دور کر کے ختم کر دیتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَوَقَعَ الۡحَـقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‌ۚ‏ (سورۃ اعراف آیت 118)
آخر حق ثابت ہو گیا اور جو کچھ وہ لوگ کرتے تھے باطل ہو گیا۔
اور ابطل بمعنی کس کام کو بے اثر اور نے نتیجہ بنا دینا جس کی وجہ کوئی دوسرا اس کے مخالف عمل ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِكُمۡ بِالۡمَنِّ وَالۡاَذٰىۙ (سورۃ بقرۃ آیت 264)
مومنو! اپنے صدقات و خیرات احسان رکھنے اور ایذا دینے سے برباد نہ کر دینا

4: اضاع

بمعنی تلف کرنا، ہلاک کرنا، برباد کرنا۔ خواہ یہ کسی بھی وجہ سے ہو، عام ہے۔ ارشاد باری ہے:
فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ خَلۡفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهٰوتِ‌ فَسَوۡفَ يَلۡقَوۡنَ غَيًّاۙ‏ (سورۃ مریم آیت 59)
پھر ان کے بعد چند ناخلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا۔ اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے۔ سو عنقریب انکو گمراہی کی سزا ملے گی۔

ماحصل:

  • ضلّ: کسی چیز کا ضائع ہو کر دوسرے کے حق میں چلے جانا اور اپنا وجود کھو دینا۔
  • حبط: بعض دوسرے اسباب کی وجہ سے کوئی عمل بے اثر اور بے نتیجہ ثابت ہونا۔
  • بطل: کسی عمل کے مخالف کوئی ایسا عمل جو پہلے عمل کو بے کار کر دے۔
  • اضاع: عام ہے۔ کسی بھی وجہ سے کوئی چیز برباد کر دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

برداشت کرنا

کے لیے حلم، صبر اور کظم کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حلم

بمعنی بردبار ہونا، حوصلہ والا ہونا۔ یہ ایک مستقل صفت ہے جو ہر وقت حلیم انسان کے اندر موجود رہتی ہے۔ یعنی جب وہ کوئی ناگوار بات سنے یا اسے کوئی صدمہ پیش آئے یا کوئی بے عزتی کرے یا کوئی بڑی خوش کن بات سنے تو اس کی طبیعت میں اتار پڑھاؤ پیدا نہ ہو یا اگر ہو تو معمولی قسم کا ہو اور علی حالہ بر قرار رہے۔ اور یہ بڑی محمود صفت ہے اور ابو ہلال اس کا معنی امہالَ بِتَأْخِيرِ الْعِقَابِ الْمُسْتَحَق (فق ل 165) یعنی کسی مستحق سزا کو سزا میں تاخیر کر کے مہلت دینا ہے۔ (فق ل) ارشاد باری ہے:
فَبَشَّرۡنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيۡمٍ‏ (سورۃ صافات آیت 101)
پس ہم نے انہیں بڑے بُرد بار بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) کی بشارت دی

2: صبر

الصبر کے لغوی معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روکنا (مف) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الصبر کی یوں تعریف فرمائی کہ الصبر عند الصدمة الأولى (بخاری) یعنی کسی صدمہ، مصیبت یا ناگوار حادثہ کے پڑنے پر فورا اپنے نفس کو جزع فزع اور بیقراری سے روکنا اور اسے برداشت کر جانا ہے۔ ارشاد باری ہے۔
وَالصّٰبِرِيۡنَ فِىۡ الۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيۡنَ الۡبَاۡسِؕ اُولٰٓٮِٕكَ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡاؕ وَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ‏ (سورۃ بقرۃ آیت 177)
اور سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو ایمان میں سچّے ہیں اور یہی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔

3: کظم

سانس کی نالی کو کہتے ہیں اور کظم السقاء بمعنی مشک کو پانی سے لبالب بھر کر اس کا منہ بند کر دینا (مف) اور کظیم اور مکظوم اس شخص کو کہتے ہیں جو غم یا غصہ سے سانس کی نالی تک بھرا ہوا ہو۔ مگر اس کا اظہار نہ کرے اور اسے دبا جائے۔ ارشاد باری ہے:
وَتَوَلّٰى عَنۡهُمۡ وَقَالَ يٰۤاَسَفٰى عَلٰى يُوۡسُفَ وَابۡيَـضَّتۡ عَيۡنٰهُ مِنَ الۡحُـزۡنِ فَهُوَ كَظِيۡمٌ‏ (سورۃ یوسف آیت 84)
اور انکے پاس سے چلے گئے اور کہنے لگے کہ ہائے افسوس یوسف پر ہائے افسوس اور رنج و الم میں انکی آنکھیں سفید ہو گئیں اور ان کا دل غم سے بھر رہا تھا۔
دوسرے مقام پر حضرت یونس کے متعلق فرمایا:
فَاصۡبِرۡ لِحُكۡمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنۡ كَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ‌ۘ اِذۡ نَادٰى وَهُوَ مَكۡظُوۡمٌؕ‏ (سورۃ قلم آیت 48)
پس آپ اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر فرمائیے اور مچھلی والے (پیغمبر یونس علیہ السلام) کی طرح (دل گرفتہ) نہ ہوں، جب انہوں نے (اللہ کو) پکارا اس حال میں کہ وہ (اپنی قوم پر) غم و غصہ سے بھرے ہوئے تھے
تیسرے مقام پر مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِىۡ السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‌ۚ‏ (سورۃ آل عمران آیت 134)
جو آسودگی اور تنگی میں اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں۔ اور اللہ نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔

ماحصل:

  • حلم: غم و غصہ کے موقع پر طبیعت کا اعتدال پر رہنا۔ اور کسی مستحق سزا کو سزا دینے میں تاخیر کرنا اور مہلت دینا۔
  • صبر: ہر قسم کی سختی اور مصیبت کے وقت بے قراری سے پرہیز اور اسے برداشت کر جانا۔
  • کظم: غم اور غصہ خواہ کتنا ہی زیادہ ہو، کو دبائے رکھنا اور اس کا اظہار نہ ہونے دینا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بڑا (بزرگ)

کے لیے کبیر اور اکبر اور عظیم اور اعظم، ذوالجلال اور مجید کے الفاظ آئے ہیں۔

1: کبیر اور اکبر

اکبر میں بنیادی طور پر محض بڑائی کے معنی پائے جاتے ہیں۔ کبیر کی ضد صغیر اور اکبر کی اصغر ہے۔ اور یہ اسمائے اضافیہ سے ہے۔ یعنی ہر چیز اپنے سے چھوٹی کے مقابلہ میں کبیر ہے اور وہی چیز اپنے سے بڑی کے مقابلہ میں صغیر ہے (مف) اور کبیر کا لفظ بنیادی طور پہ اجسام کیلئے استعمال ہوتا ہے خواہ وہ چیز عمر میں بڑی ہو یا جسامت میں یا کسی دوسری صفت ظاہری میں ۔ مثلاً :
عمر میں بڑائی کے لیے:
قَالَ كَبِيۡرُهُمۡ اَلَمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اَبَاكُمۡ قَدۡ اَخَذَ عَلَيۡكُمۡ مَّوۡثِقًا مِّنَ اللّٰهِ وَمِنۡ قَبۡلُ مَا فَرَّطْتُّمۡ فِىۡ يُوۡسُفَ (سورۃ یوسف آیت 80)
سب سے بڑے نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے والد نے تم سے اللہ کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں قصور کر چکے ہو۔
جسامت میں بڑائی کے لیے:
فَجَعَلَهُمۡ جُذٰذًا اِلَّا كَبِيۡرًا لَّهُمۡ لَعَلَّهُمۡ اِلَيۡهِ يَرۡجِعُوۡنَ‏ (سورۃ انبیاء آیت 58)
پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا سوائے بڑے (بُت) کے تاکہ وہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں
لیکن بعد میں لفظ کبیر اور اکبر کا استعمال معنوی طور پر بھی ہونے لگا۔ مثلاً:
يَسۡـَٔـلُوۡنَكَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَالۡمَيۡسِرِ‌ؕ قُلۡ فِيۡهِمَآ اِثۡمٌ کَبِيۡرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثۡمُهُمَآ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِهِمَاؕ (سورۃ بقرۃ آیت 219)
اے پیغمبر لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں گناہ بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے گناہ فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
کبیر کی جمع کبراء آتی ہے اور اکبر اسم تفضیل ہے یعنی بہت بڑا یا سب سے بڑا دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کی جمع اکابر آتی ہے۔

2: عظیم (ضد حقیر)، اعظم

عظم کے بنیادی معنی میں بڑائی کے علاوہ قوت اور شدت کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے ۔ اور یہ معنوی صفات کہیں سب اکٹھی اور کہیں فردا فردا پائی جاتی ہیں۔ اور ہڈی کو بھی اس کی قوت اور شدت کی وجہ سے عظم کہتے ہیں۔ (م ل) عظم اور عظیم دونوں کی جمع عظام آتی ہے۔ عظیم کا لفظ بھی اجسام و اعیان دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (مف) اور اعظم اسم تفضیل ہے بمعنی بہت بڑا یا بزرگ یا سب سے بڑا اور بزرگ۔ اب مثالیں دیکھیے
خَتَمَ اللّٰهُ عَلَىٰ قُلُوۡبِهِمۡ وَعَلٰى سَمۡعِهِمۡ‌ؕ وَعَلٰٓى اَبۡصَارِهِمۡ غِشَاوَةٌ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ (سورۃ بقرۃ آیت 7)
اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پرمہر لگا رکھی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہےاور ان کے لئے بڑا عذاب تیار ہے۔
فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الۡعَظِيۡمِ (سورۃ واقعہ آیت 96)
سو آپ اپنے ربِّ عظیم کے نام کی تسبیح کیا کریں‏
ایک قوم میں کبیر اور اکبر بہت سے لوگ ہو سکتے ہیں لیکن عظیم ایک ہی ہوتا ہے۔ (فق ل ۱۵۰)

3: ذوالجلال

جلال قدر و منزلت میں بڑائی کو کہتے ہیں۔ ذوالجلال بمعنی عظیم المرتبت اور جلیل کے معنی بڑی بڑی عظیم الشان اشیاء کو پیدا کرنے والا ہے (مف) اور بمعنی اپنے عظیم الشان کاموں کی وجہ سے مستحق تعریف ذات (فق ل ۱۵۰) ارشاد باری ہے:
تَبٰرَكَ اسۡمُ رَبِّكَ ذِىۡ الۡجَـلٰلِ وَالۡاِكۡرَامِ (سورۃ رحمن آیت 78)
آپ کے رب کا نام بڑی برکت والا ہے، جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ اِنعام و اِکرام ہے‏

4: مجید

مجد کے معنی شان و شوکت میں بڑا اور وسیع الشان ہونے کے ہیں (مف)۔ اور ابن الفارس کے نزدیک وہ جو کرم و عزت و شرافت میں انتہائی حد کو پہنچا ہوا ہو (م -ل) اور بمعنی لوگوں کی نظروں میں بڑا ہو (م ق)۔ ارشاد باری ہے:
وَهُوَ الۡغَفُوۡرُ الۡوَدُوۡدُۙ‏ ذُوۡ الۡعَرۡشِ الۡمَجِيۡدُۙ‏ (سورۃ بروج آیت 14، 15)
اور وہ بڑا بخشنے والا بہت محبت فرمانے والا ہے مالکِ عرش (یعنی پوری کائنات کے تختِ اقتدار کا مالک) بڑی شان والا ہے

ماحصل:

  • کبیر: بڑائی کے لیے عام لفظ ہے۔ عموماً اجسام اور ظاہری صفات میں بڑائی کے لیے آتا ہے۔
  • عظیم: جس میں بڑائی کے علاوہ قوت اور شدت پائی جائے جس طرح حقیر اصغر سے کم تر ہے اسی طرح عظیم اکبر سے اوپر ہے۔
  • ذوالجلال: قدر و منزلت میں بزرگ۔ اور عظیم الشان کاموں کی وجہ سے حمد کا مستحق۔
  • مجید: شان و شوکت میں بزرگ رعب و داب میں بڑا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بڑائی (بزرگی)

کے لیے کبر، جلال اور جدّ کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔

1: کبر

عموماً عمر میں بڑائی کے لیے آتا ہے۔ یعنی بڑھاپا۔ جیسے فرمایا :
اَيَوَدُّ اَحَدُكُمۡ اَنۡ تَكُوۡنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنۡ نَّخِيۡلٍ وَّاَعۡنَابٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُۙ لَهٗ فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِۙ وَاَصَابَهُ الۡكِبَرُ وَلَهٗ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَآءُ ۖۚ فَاَصَابَهَاۤ اِعۡصَارٌ فِيۡهِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ‌ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَ (سورۃ بقرۃ آیت 266)
بھلا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہ رہی ہوں اور اس میں اس کے لئے ہر قسم کے میوے موجود ہوں اور اسے بڑھاپا آ پکڑے اور اس کے ننّھے ننّھے بچے بھی ہوں تو ناگہاں اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے پس وہ جل جائے اس طرح اللہ تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تا کہ تم سوچو اور سمجھو۔
نیز کبر بمعنی اظهار عظیم الشان (فق ل ۲۰۳) اپنی شان کی بڑائی کا اظہار تکبر ہے۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کے لیے سزاوار ہے۔ باقی سب کے لیے مذموم ہے۔ قرآن میں ہے:
اِنۡ فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ اِلَّا كِبۡرٌ مَّا هُمۡ بِبَالِغِيۡهِؕ (سورۃ مؤمن آیت 56)
ان کے سینوں میں سوائے غرور کے اور کچھ نہیں ہے وہ اُس (حقیقی برتری) تک پہنچنے والے ہی نہیں

2: جلال

قدر و منزلت میں بڑائی عظمت کی آخری حد جس کے بعد اور کوئی مرتبہ نہ ہو ۔ اور ذوالجلال کا لفظ صرف اللہ تعالی سے مخصوص ہے۔ جبکہ جلیل دوسری اشیاء بھی ہو سکتی ہیں۔ اور جلیل ہر وہ چیز ہے جو ہر بات میں بڑی ہو اور مضبوط ہو عظیم الشان (مف) ارشاد باری ہے:
تَبٰرَكَ اسۡمُ رَبِّكَ ذِىۡ الۡجَـلٰلِ وَالۡاِكۡرَامِ (سورۃ رحمن آیت 78)
آپ کے رب کا نام بڑی برکت والا ہے، جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ اِنعام و اِکرام ہے‏

3: جدّ

بمعنی فیض الہی اور بمعنی بخت و نصیب جددت بمعنی خوش قسمت صاحب نصیب ہو گیا۔ اور جدّ یعنی دنیاوی مال و جاہ سے کسی کو نوازنا نیز جدّ بمعنی آبائی نسب (مف) جدّ بمعنی دادا نانا (جمع اجداد) اور بمعنی خوش قسمتی بزرگی، عظمت، دولت، رزق اور فلان ذُو جد بمعنی وہ شخص بڑا صاحب نصیب ہے (منجد) ارشاد باری ہے:
وَّاَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّلَا وَلَدًاۙ‏ (سورۃ جن آیت 3)
اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے، اس نے نہ کوئی بیوی بنا رکھی ہے اور نہ ہی کوئی اولاد

ماحصل:

  • کبر: عمر میں بڑائی کے لیے یا اپنی شان کے اظہار کے لیے۔
  • جلال: قدر و منزلت میں بڑائی کی آخری حد۔
  • جدّ: فیضان الہی کہ وہ دوسروں کو بھی بزرگی عطا کرتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بڑھنا اور بڑھانا

کے لیے زاد اور ازداد، کثر اور کثّر، ضاعف، عفا، تطوّع، نفل، اربی کے الفاظ آئے ہیں۔

1: زاد اور ازداد:

(ضد نقص) بمعنی بڑھنا اور بڑھانا ۔ دونوں افعال لازم و متعدی دونوں طرح آتے ہیں (مف، منجد) یہ بڑھنے اور بڑھانے کے لیے عام لفظ ہے جو عموماً مقدار اور صفات میں اضافہ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور الزیادۃ بمعنی وہ اضافہ ہے جو کسی چیز کے پورا ہونے کے بعد بڑھایا جائے (مف) اب ان کی مثالیں دیکھیے :
قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰٮهُ عَلَيۡکُمۡ وَزَادَهٗ بَسۡطَةً فِىۡ الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ (سورۃ بقرۃ آیت 247)
یغمبر نے کہا کہ اللہ نے اس کو تم پر فضیلت دی ہے اور بادشاہی کے لئے منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی بڑا عطا کیا ہے
اللّٰهُ يَعۡلَمُ مَا تَحۡمِلُ كُلُّ اُنۡثٰى وَمَا تَغِيۡضُ الۡاَرۡحَامُ وَمَا تَزۡدَادُ‌ؕ وَكُلُّ شَىۡءٍ عِنۡدَهٗ بِمِقۡدَارٍ‏ (سورۃ رعد آیت 8)
اللہ ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور وہی پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی واقف ہے اور ہرچیز کا اسکے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔

2: کثر اور کثّر

(ضد قلّ) تعداد اور مقدار میں زیادہ ہونا۔ مثلاً تعداد کے لیے:
وَدَّ کَثِيۡرٌ مِّنۡ اَهۡلِ الۡكِتٰبِ لَوۡ يَرُدُّوۡنَكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ اِيۡمَانِكُمۡ كُفَّارًا (سورۃ بقرۃ آیت 109)
بہت سے اہل کتاب اپنے دل کی جلن سے یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لا چکنے کے بعد تم کو پھر کافر بنا دیں۔
مقدار کے لیے:
وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ اَوۡ كَثُرَ‌ؕ نَصِيۡبًا مَّفۡرُوۡضًا‏ (سورۃ نساء آیت 7)
اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے
اور کثر عموماً تعداد میں اضافہ کے لیے آتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَاذۡكُرُوۡۤا اِذۡ كُنۡتُمۡ قَلِيۡلاً فَكَثَّرَكُمۡ (سورۃ اعراف آیت 86)
اور اس وقت کو یاد کرو جب تم تھوڑے سے تھے تو اللہ نے تم کو جماعت کثیر کر دیا
اور اکثر عموماً مقدار میں اضافہ کے لیے آتا ہے۔ جیسے فرمایا
فَاَكۡثَرُوۡا فِيۡهَا الۡفَسَادَ (سورۃ فجر آیت 12)
پھر ان میں بڑی فساد انگیزی کی تھی

3: ضاعف

ضعف بمعنی دو گنا (ضد نصف) ضعف الشیء بمعنی کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور (مف) خواہ یہ اضافہ مقدار میں ہو یا تعداد میں۔ اور ضعف بمعنی دُگنا کرنا اور ضاعف میں اور زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے، ارشاد باری ہے:
مَثَلُ الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِىۡ كُلِّ سُنۡۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ‌ؕ وَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ‏ (سورۃ بقرۃ آیت 261)
جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے مال کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں۔ اور اللہ جسکے اجر کو چاہتا ہے اور زیادہ کرتا ہے اور اللہ کشائش والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔

4: عفا

عفا کا عام معنی معاف کرنا ہے تاہم اس کا لغوی معنی یہ بھی ہے کہ کسی چیز کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ بڑھ جائے ۔ عفا الشعر بمعنی بالوں کو چھوڑ دینا تا کہ وہ بڑھ جائیں اور لمبے ہو جائیں۔ ارشاد نبوی ہے قصوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا اللحی یعنی مونچھوں کو کترو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ اور یہ لفظ لازم و متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔
قرآن میں ہے:
ثُمَّ بَدَّلۡـنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الۡحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّقَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَالسَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰهُمۡ بَغۡتَةً وَّهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ (سورۃ اعراف آیت 95)
پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ مال و اولاد میں زیادہ ہوگئے تو کہنے لگے کہ اسی طرح کا رنج و راحت ہمارے بڑوں کو بھی پہنچتا رہا ہے تو ہم نے انکو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اپنے حال میں بے خبر تھے۔
اور عفو بڑھی ہوئی اور ضرورت سے زائد چیز کو بھی کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَيَسۡـَٔـلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَؕ قُلِ الۡعَفۡوَ‌ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَۙ‏ (سورۃ بقرۃ آیت 219)
اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تا کہ تم سوچو۔

5: تطوّع

طوع بمعنی دل کی خوشی سے تابعدار ہونا (مف) اور تطوّع کے اصل معنی تو بہ تکلف حکم بجا لانا ہے۔ مگر عرف میں وہ نیکی کے کام اور عبادات ہیں جو فرائض کے علاوہ اپنے شوق سے سر انجام دی جائیں۔ مثلاً نفلی نماز و صدقات وغیرہ۔ ارشاد باری ہے:
وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗؕ (سورۃ بقرۃ آیت 184)
اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں لیکن رکھیں نہیں وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں۔ اور جو کوئی اپنی مرضی سے زیادہ نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔

6: نافلۃ

نفل بھی واجب پر زیادتی کو کہتے ہیں (مف) اور انفال اموال غنیمت کو ۔ نفل اور تطوّع میں فرق یہ ہے کہ تطوّع میں دل کی خوشی اور شوق بھی ضروری ہوتا ہے جبکہ نوافل کی ادائیگی میں یہ بات ضروری نہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَمِنَ الَّيۡلِ فَتَهَجَّدۡ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ‌ۖ عَسٰىۤ اَنۡ يَّبۡعَـثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 79)
اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی تمہارے لئے ایک اضافی عمل ہے امید ہے کہ اللہ تم کو مقام محمود پر فائز فرمائے۔

7: اربی

ربال المال بمعنی مال کا زیادہ ہونا۔ اور ربو بمعنی سود۔ اصل زر پر بلا محنت زائد اضافہ۔ ربا الفرس بمعنی گھوڑے کا سانس پھول جانا اور ربا الولد بمعنی بچے کا نشو و نما پا کر بڑھنا ہے۔ اور اربی بمعنی کسی چیز کی تربیت کرنا یا پال پوس کر بڑھانا ہے۔ ارشاد باری ہے:
يَمۡحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرۡبِىۡ الصَّدَقٰتِ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيۡمٍ‏ (سورۃ بقرۃ آیت 276)
اللہ سود کو نابود یعنی بے برکت کرتا اور خیرات کی برکت کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔

ماحصل:

  • زاد: کسی چیز کے پورا ہونے کے بعد مقدار اور صفات میں اضافہ کے لیے۔
  • کثر: تعداد اور مقدار میں اضافہ کے لیے۔
  • ضاعف: دگنا یا اس سے بھی زیادہ کرنے کے لیے۔
  • عفا: کسی چیز کو چھوڑ دینا کہ وہ بڑھ جائے۔
  • تطوّع: فرائض پر اپنے شوق سے زیادتی۔
  • نفل: واجبات پر زیادتی۔
  • اربی: پال پوس کر بڑھانے کے لیے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بستی – بستی والے

کے لیے قریۃ، بدو اور اعراب کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: قریۃ

ہر وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہو جائیں قریۃ ہے خواہ یہ چھوٹی سی بستی ہو، گاؤں ہو، قصبہ ہو یا شہر (جمع قری) اور ام القری بمعنی مرکزی بستی یا شہر۔ شہر مکہ کو بھی ام القری کہا گیا ہے اور قریۃ سے مراد بستی بھی ہے اور بستی والے بھی یا باشندگان بھی (مف) قرآن میں ہے:
وَسۡــَٔلِ الۡقَرۡيَةَ الَّتِىۡ كُنَّا فِيۡهَا وَالۡعِيۡرَ الَّتِىۡ اَقۡبَلۡنَا فِيۡهَا‌ؕ وَاِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 82)
اور جس بستی میں ہم ٹھہرے تھے وہاں سے یعنی اہل مصر سے اور جس قافلے میں آئے ہیں اس سے دریافت کر لیجئے۔ اور ہم اس بیان میں بالکل سچے ہیں۔

2: بدو

بمعنی گاؤں، دیہات یا دور افتادہ جگہ۔ بدا بمعنی ظاہر ہونا اور بدو سے ایسی جگہ مراد ہے جہاں بلند عمارتیں نہ ہونے کی وجہ سے سب کچھ نمایاں طور پر نظر آتا ہو (مف) اسی سے بادیۃ بمعنی صحرا، بادی بمعنی صحرا نشین اور بدوی بمعنی دیہاتی کے الفاظ مشتق ہیں۔ قرآن میں ہے:
وَقَدۡ اَحۡسَنَ بِىۡۤ اِذۡ اَخۡرَجَنِىۡ مِنَ السِّجۡنِ وَجَآءَ بِكُمۡ مِّنَ الۡبَدۡوِ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ نَّزَغَ الشَّيۡطٰنُ بَيۡنِىۡ وَبَيۡنَ اِخۡوَتِىۡ‌ؕ اِنَّ رَبِّىۡ لَطِيۡفٌ لِّمَا يَشَآءُ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡعَلِيۡمُ الۡحَكِيۡمُ‏ (سورۃ یوسف آیت 100)
اور اس نے مجھ پر بہت سے احسان کئے ہیں کہ مجھ کو قید خانے سے نکالا۔ اور اسکے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بیشک میرا پروردگار جو چاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے وہ علم والا ہے حکمت والا ہے۔

3: اعراب

عربی بمعنی ملک عرب کا باشندہ اور اعرابی بمعنی عرب کا دیہاتی۔ ملک عرب کے دیہات میں رہنے والا (جمع اعراب) بادیہ نشین۔ پھر چونکہ دیہات کے رہنے والے لوگ عموماً جاہل اور گنوار ہوتے ہیں لہذا اعراب کا لفظ گنوار کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَمِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ يَّتَّخِذُ مَا يُنۡفِقُ مَغۡرَمًا وَّيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَآٮِٕرَ‌ؕ عَلَيۡهِمۡ دَآٮِٕرَةُ السَّوۡءِ‌ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ (سورۃ التوبہ آیت 98)
اور بعض دیہاتی ایسے ہیں کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں مصیبتوں کے منتظر ہیں۔ انہی پر بری مصیبت واقع ہو۔ اور اللہ سننے والا ہے جاننے والا ہے۔

ماحصل:

  • قریۃ: بستی (گاؤں یا شہر) اور اس کے باشندے۔
  • بدو: دیہات اور دور افتادہ مقامات کے لیے۔
  • اعراب: دیہاتیوں اور گنواروں کے معنوں میں آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بکری

بکری کے لیے غنم اور معز کے الفاظ ہیں۔

1: غنم

غنم کے معنی اصل میں ایسا مال ہاتھ لگنا ہے جو پہلے کسی کی ملکیت نہ ہو (م ل) پھر یہ لفظ ایسی بکریوں کے ریوڑ پر استعمال ہونے لگا جو کہیں سے ہاتھ لگ جائیں۔ بعد میں اس لفظ کا اطلاق اس مال پر بھی ہونے لگا جو لڑائی کے بعد دشمن سے حاصل ہو (مف) ارشاد باری ہے:
وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَلِذِىۡ الۡقُرۡبَىٰ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِۙ (سورۃ الانفال آیت 41)
اور جان رکھو کہ جو مال غنیمت تم کفار سے حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا اور اسکے رسول کا اور اہل قرابت اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔
پھر اس لفظ کا استعمال عام بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ بھی مخصوص ہو گیا۔ ارشاد باری ہے:
وَدَاوٗدَ وَسُلَيۡمٰنَ اِذۡ يَحۡكُمٰنِ فِىۡ الۡحَـرۡثِ اِذۡ نَفَشَتۡ فِيۡهِ غَنَمُ الۡقَوۡمِ‌ۚ وَكُنَّا لِحُكۡمِهِمۡ شٰهِدِيۡنَۙ (سورۃ انبیاء آیت 78)
اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام کا قصہ بھی یاد کریں) جب وہ دونوں کھیتی (کے ایک مقدمہ) میں فیصلہ کرنے لگے جب ایک قوم کی بکریاں اس میں رات کے وقت بغیر چرواہے کے گھس گئی تھیں (اور اس کھیتی کو تباہ کر دیا تھا)، اور ہم ان کے فیصلہ کا مشاہدہ فرما رہے تھے

2: معز

بمعنی بکریاں۔ اسم جنس ہے۔ بکری، بکرا سب کے لیے یکساں ہے اور اس کا واحد ماعز ہے (منجد) ارشاد باری ہے:
ثَمٰنِيَةَ اَزۡوٰجٍ‌ۚ مِّنَ الضَّاۡنِ اثۡنَيۡنِ وَمِنَ الۡمَعۡزِ اثۡنَيۡنِ (سورۃ الانعام آیت 143)
یہ بڑے چھوٹے مویشی آٹھ قسم کے ہیں دو دو بھیڑوں میں سے اور دو دو بکریوں میں سے یعنی ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ

ماحصل:

جب دو یا دو سے زیادہ بکریاں ہوں تو اس پر معز کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ لیکن غنم صرف بکریوں کے ریوڑ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بکھرنا (پراگندہ ہونا)

کے لیے انبثّ، انتشر، انتثر (نثر) اور انفض، استطار کے الفاظ آئے ہیں۔

1: انبثّ

بثّ کے معنی پراگندہ کرنا اور دور دور تک پھیلا دینا ہے (م ا) اور انبثّ کے معنی کسی چیز کا متفرق ہو کر سب اطراف میں دور تک پھیل جانا ہے۔ اور اس میں پھیلنے والی چیز کے ارادہ کا کچھ دخل نہیں ہوتا۔ ارشاد باری ہے:
وَّبُسَّتِ الۡجِبَالُ بَسًّاۙ‏ فَكَانَتۡ هَبَآءً مُّنۡۢبَثًّاۙ‏ (سورۃ الواقعہ آیت 5، 6)
اور پہاڑ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے پھر وہ غبار بن کر منتشر ہو جائیں گے

2: انتشر

نشر کے معنی پھیلانا اور مشہور کرنا (م ا) اور انتشر کے معنی کسی مجمع یا جلوس وغیرہ سے لوگوں کا اُٹھ کر چلے جانا اور اپنی اپنی راہ لینا۔ ارشاد باری ہے:
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانتَشِرُوۡا فِىۡ الۡاَرۡضِ وَابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ وَاذۡكُرُوۡا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‏ (سورۃ الجمعہ آیت 10)
پھر جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ

3: افضّ

فضّ کے معنی کسی چیز کو اس طرح توڑنا کہ وہ الگ الگ ہو جائے اور انفضاض بمعنی شیشہ وغیرہ کے ٹکڑے ٹوٹ ٹوٹ کر الگ الگ ہوتے جانا (م ا) ہے۔ گویا انفضّ کے معنی کسی چیز کے سب کے سب اجزاء کا پراگندہ ہونا ہے ۔ ارشاد باری ہے:
وَاِذَا رَاَوۡا تِجَارَةً اَوۡ لَهۡوَاۨ انفَضُّوۡۤا اِلَيۡهَا وَتَرَكُوۡكَ قَآٮِٕمًا‌ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰهِ خَيۡرٌ مِّنَ اللَّهۡوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ‌ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ (سورۃالجمعہ آیت 11)
اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں) کھڑے چھوڑ گئے، فرما دیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے

4: انتثر

نثر ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی چیز سے جھڑ کر پراگندہ ہو جائے۔ اور انتثار ناک جھاڑنے کو کہتے ہیں۔ (م ا) ابن فارس نثر کے معنی کسی متفرق چیز کو نیچے ڈال دینا لکھتے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ میں كلمة تدلّ علی القاء شیء متفرّق (م - ل) اور نثر غیر منظوم عبارت کو بھی کہتے ہیں۔ نیز انتثر صرف غیر جاندار کے لیے آتا ہے:
اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتۡۙ‏ وَاِذَا الۡكَوَاكِبُ انْتَثَرَتۡۙ‏ (سورۃ الانفطار آیت 1، 2)
جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے اور جب سیارے گر کر بکھر جائیں گے

5: اسْتَطَارَ

طَار بمعنی کسی پردار جانور یا چیز کا ہوا میں اڑنا اور طائر بمعنی پرندہ ہے (جمع طیر) اور استطار بمعنی کسی چیز کا ہوا میں بلند ہو کر پھیلنا اور بکھر جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
يُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَيَخَافُوۡنَ يَوۡمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسۡتَطِيۡرًا‏ (سورۃ الدھر آیت 7)
(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے

ماحصل:

  • انبثّ: متفرق ہونا اور دور دور تک پھیل جانا۔ (ارادہ کا دخل نہیں ہوتا )
  • انتشر: مجمع کا متفرق ہونا اور اپنی اپنی راہ لینا۔ (اپنے ارادہ سے)
  • انفض: کسی چیز کے پورے اجزاء کا آہستہ آہستہ متفرق ہونا اور پراگندہ ہوتے جانا۔
  • انتثر: متفرق ہونا اور گر پڑنا (غیر جاندار چیزوں کے لیے آتا ہے)۔
  • استطار: کسی چیز کا فضا میں بکھر کر پھیل جانا۔ نیز دیکھیے اٹھانا۔
بکھیرنا کیلیے دیکھیے پھیلانا اور اڑانا۔
بگاڑنا کیلیے دیکھیے "خرابی"۔
بگاڑنا کے لیے دیکھیے "فساد کرنا"۔
بلانا کے لیے دیکھیے "پکارنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بلند کرنا (اونچا کرنا)

کے لیے رفع اور انشا کے الفاظ آئے ہیں۔

1: رفع

رفع کے معنی بلند کرنا۔ اور اگر یہ فعل زمین سے کوئی چیز اٹھانے اور بلند کرنے سے متعلق ہو تو اس کی ضد وضع آتی ہے۔ اور اگر آواز کو بلند کرنے سے متعلق ہو تو اس کی ضد خفض آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
کسی چیز کو بلند کرنے کے لیے :
وَاِذۡ يَرۡفَعُ اِبۡرٰهٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَيۡتِ وَاِسۡمٰعِيۡلُؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 127)
اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے تو دعا کئے جاتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم سے یہ خدمت قبول فرما بیشک تو سننے والا ہے جاننے والا ہے۔
آواز بلند کرنے کے لیے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِىِّ (سورۃ الحجرات آیت 2)
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو

2: انشاء

نشو بمعنی کسی چیز کا اٹھنا اور بلند ہو نا (م ل) نیز اس کے معنی کسی کی تربیت کر کے اُسے پروان چڑھانا بھی ہے (مف) اور نشاۃ اٹھان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اس لفظ کے بلند ہونے کا پہلو زیر بحث ہے۔ اور انشا بمعنی کسی چیز کو پیدا کرنا، اٹھانا اور پروان چڑھانا۔
قرآن میں ہے:
هُوَ الَّذِىۡ يُرِيۡكُمُ الۡبَرۡقَ خَوۡفًا وَّطَمَعًا وَّيُنۡشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ‌ۚ‏ (سورۃ الرعد آیت 12)
وہی تو ہے جو تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے۔

ماحصل:

  • رفع کسی چیز کو زمین سے بلند کرنا، اونچا کرنا۔
  • انشا کسی چیز کو پیدا کرنا۔ تربیت کرنا اور اوپر اٹھانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بلند ہونا - اونچا ہونا

کے لیے علا، بسق اور شمخ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: علاء

بمعنی بلند ہونا اور اس کی ضد سفل ہے۔ یہ لفظ اجسام و اعیان دونوں جگہ استعمال ہوتا ہے یعنی جگہ اور کسی جسم کی بلندی کے لیے بھی اور مرتبہ کی بلندی کے لیے بھی۔ نیز یہ لفظ مذموم اور محمود دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اب مثالیں ملاحظہ فرمائیے
(۱) جگہ کی بلندی کے لیے:
وَّرَفَعۡنٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا‏ (سورۃ مریم آیت 57)
اور ہم نے انکو اونچی جگہ اٹھا لیا تھا۔
(۲) مرتبہ کی بلندی کے لیے:
وَوَهَبۡنَا لَهُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِنَا وَجَعَلۡنَا لَهُمۡ لِسَانَ صِدۡقٍ عَلِيًّا (سورۃ مریم آیت 50)
اور ہم نے انکو اپنی رحمت سے بہت سی چیزیں عنایت کیں۔ اور انکا ذکر جمیل بلند کیا۔
(۳) مذموم صورت میں:
اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِىۡ الۡاَرۡضِ وَجَعَلَ اَهۡلَهَا شِيَـعًا يَّسۡتَضۡعِفُ طَآٮِٕفَةً مِّنۡهُمۡ يُذَبِّحُ اَبۡنَآءَهُمۡ وَيَسۡتَحۡىٖ نِسَآءَهُمۡ‌ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِيۡنَ‏ (سورۃ القصص آیت 4)
کہ فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا اور وہاں کے باشندوں کر گروہ گروہ بنا رکھا تھا ان میں سے ایک گروہ کو یہاں تک کمزور کر دیا تھا کہ انکے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا اور انکی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔ بیشک وہ مفسدوں میں تھا۔

3: بسق

صرف بلند و بالا درختوں اور خصوصاً کھجور کے بلند ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (ف ل۴۳) ارشاد باری ہے:
وَالنَّخۡلَ بٰسِقٰتٍ لَّهَا طَلۡعٌ نَّضِيۡدٌۙ‏ (سورۃ ق آیت 10)
اور لمبی لمبی کھجوریں جن کے خوشے تہ بہ تہ ہوتے ہیں

3: شمخ

شمخ کا لفظ کسی چیز کے (۱) بڑا اور (۲) بلند ہونے پر دلالت کرتا ہے (م ل) پہاڑوں اور بلند و بالا عمارتوں کی بلندی کے لیے استعمال ہوتا ہے (ف ل 43) فلک بوس بلندی۔ ارشاد باری ہے:
وَّجَعَلۡنَا فِيۡهَا رَاوسِىَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسۡقَيۡنٰكُمۡ مَّآءً فُرَاتًاؕ‏ (سورۃ المرسلات آیت 27)
ہم نے اس پر بلند و مضبوط پہاڑ رکھ دئیے اور ہم نے تمہیں (شیریں چشموں کے ذریعے) میٹھا پانی پلایا

ماحصل:

علا کا استعمال عام ہے لیکن بلند درختوں اور خصوصاً کھجور کی بلندی کے لیے بسق اور پہاڑوں اور بلند عمارتوں کی بلندی کے لیے شمخ آئے گا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بنانا

کے لیے جعل، بنی اور صنع اور اصطنع اور اتّخذ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: جعل

بنانا کے لیے جعل کا استعمال عام ہے۔ خواہ اس کام کا تعلق ایجاد اور تخلیق سے ہو یا محض ترتیب وغیرہ سے۔ ارشاد باری ہے:
الَّذِىۡ جَعَلَ لَـكُمُ الۡاَرۡضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً (سورۃ البقرۃ آیت 22)
وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا

2: بنی

بنی کوئی عمارت وغیرہ بنانا اور بنیان بمعنی عمارت، دیوار یا کوئی تعمیر ہے (مف) اور ابن فارس کے نزدیک بناء الشی بضم بعضه الى بعض (مل) یعنی کسی چیز کو اس طرح بنانا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے میں ضم ہو جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ السَّمَآءَ بَنَيۡنٰهَا بِاَيۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ‏ (سورۃ الذریات آیت 47)
اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں

3: صنع

کوئی چیز فنی مہارت کے ساتھ خوبصورت بنانا (مف) اور صنّاع ماہر کاریگر یا فنکار کو کہتے ہیں اور اصطنع کے معنی کسی کام کو فنی مہارت اور خاص توجہ سے بنانا ہے، (مف) ارشاد باری ہے:
وَاصۡنَعِ الۡفُلۡكَ بِاَعۡيُنِنَا وَوَحۡيِنَا وَلَا تُخَاطِبۡنِىۡ فِىۡ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا‌ؕ اِنَّهُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ‏ (سورۃ ھود آیت 37)
اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے سامنے بناؤ۔ اور جو لوگ ظالم ہیں انکے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہنا کیونکہ وہ ضرور غرق کر دیئے جائیں گے۔
وَاصۡطَنَعۡتُكَ لِنَفۡسِى‌ۚ‏ (سورۃ طہ آیت 41)
اور (اب) میں نے تمہیں اپنے (امرِ رسالت اور خصوصی انعام کے) لئے چن لیا ہے

4: اتخذ

اخذ بمعنی پکڑنا، لینا کسی چیز کو حاصل کرنا، احاطہ میں لینا اور اتخذ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہو کر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے۔ (مف) اس میں نہ ترتیب کو کچھ دخل ہوتا ہے نہ تخلیق کو ۔ اور اس میں استمرار پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَقَالَ الَّذِىۡ اشۡتَرٰٮهُ مِنۡ مِّصۡرَ لِامۡرَاَتِهٖۤ اَكۡرِمِىۡ مَثۡوٰٮهُ عَسٰٓى اَنۡ يَّـنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَـتَّخِذَهٗ وَلَدًا‌ؕ (سورۃ یوسف آیت 21)
اور مصر میں جس شخص نے اسکو خریدا اسنے اپنی بیوی سے جس کا نام زلیخا تھا کہا کہ اسکو عزت و اکرام سے رکھو۔ عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں

ماحصل:

  • جعل: کا لفظ عام ہے۔ ہر موقع پر استعمال ہو سکتا ہے۔
  • بنی: عمارت وغیرہ بنانا۔
  • صنع: کسی چیز کو فنی مہارت سے بنانا۔
  • اتخذ: دو مفعولوں کی طرف متعدی ہو کر بنانا کے معنی دیتا ہے اور اس میں استمرار پایا جاتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بند کرنا – ہونا

کے لیے غلّق، وصد، قصر اور قبض کے الفاظ آئے ہیں۔

1: غلّق

غلق بمعنی بند کر دینا اور اس کی ضد فکّ معنی رہا کرانا یا چھڑانا ہے (م ل) اور غلق بمعنی قفل یا تالا کے ہیں (منجد) اور غلق الباب کے معنی دروازہ کو مضبوطی سے بند کرنا چٹخنی وغیرہ لگانا یا مقفل کرنا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَرَاوَدَتۡهُ الَّتِىۡ هُوَ فِىۡ بَيۡتِهَا عَنۡ نَّـفۡسِهٖ وَغَلَّقَتِ الۡاَبۡوَابَ وَقَالَتۡ هَيۡتَ لَـكَ‌ؕ قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ‌ اِنَّهٗ رَبِّىۡۤ اَحۡسَنَ مَثۡوَاىَ‌ؕ اِنَّهٗ لَا يُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 23)
اور جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے انکو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور دروازے بند کر کے کہنے لگی یوسف جلدی آؤ انہوں نے کہا کہ اللہ پناہ میں رکھے وہ یعنی تمہارے میاں تو میرے آقا ہیں انہوں نے مجھے اچھی طرح سے رکھا ہے میں ایسا ظلم نہیں کر سکتا بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے۔

2: وصد

وصد اس طرح بند کرنے کو کہتے ہیں کہ بند شدہ چیز سے کچھ باہر نہ نکل سکے۔ ابن فارس کے الفاظ الوصد خَتُم شَيْ ءٍ إِلَى شَيْءٍ (م ل) اور أَوْ صَدْتُ الْقِدْرَ کے معنی ہانڈی پر ڈھکنا دینا تاکہ بھاپ نہ نکل سکے۔ (م ا) اور اوصدْتُ الْبَابَ دروازہ بند کرنا۔ لیکن اس کا اطلاق اس وقت ہو گا جب کوئی دوسری کھڑکی یا دروازہ یا روشن دان وغیرہ کھلا نہ ہو۔ قرآن میں ہے:
عَلَيۡهِمۡ نَارٌ مُّؤۡصَدَةٌ (سورۃ البلد آیت 20)
ان پر (ہر طرف سے) بند کی ہوئی آگ (چھائی) ہوگی‏

3: قصر

بنیادی طور پر دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) کسی چیز کا اپنی انتہا اور ہدف تک نہ پہنچنا (2) حبس یعنی بندہ ہونا (م ل) یہاں دوسرا معنی زیر بحث ہے۔ کہتے ہیں قصرنی بیتہ اپنے گھر میں محبوس یا بند ہو گیا۔ چنانچہ قرآن میں ہے:
حُوۡرٌ مَّقۡصُوۡرٰتٌ فِىۡ الۡخِيَامِ‌ۚ‏ (سورۃ الرحمن آیت 72)
ایسی حوریں جو خیموں میں پردہ نشین ہیں

4: قبض

کے معنی کسی چیز کو مٹھی میں بند کرنا اور قبضۃ مٹھی کو کہتے ہیں (مف) لہذا قبض، سکڑنا، کم کرنا، تنگ کرنا اور بند کرنا سب معنوں میں مستعمل ہے۔ ارشاد باری ہے:
اَلۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتُ بَعۡضُهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ‌ۘ يَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمُنۡكَرِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمَعۡرُوۡفِ وَيَقۡبِضُوۡنَ اَيۡدِيَهُمۡ‌ؕ نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمۡ‌ؕ اِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ‏ (سورۃ التوبہ آیت 67)
منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس یعنی ایک ہی طرح کے ہیں کہ برا کام کرنے کو کہتے اور نیک کاموں سے منع کرتے اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انکو بھلا دیا۔ بیشک منافق نافرمان ہیں۔

ماحصل:

  • غلّق: دروازہ وغیرہ بند کرنے کے لیے۔
  • وصد: کسی چیز کو یوں بند کرنا کہ کوئی چیز باہر نہ نکل سکے۔
  • قصر: کسی جگہ بند ہونے کے معنوں میں۔
  • قبض: موجود چیز کو اپنے ہاتھوں میں بند رکھنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
نیز امسک اور اوعی "بخل کرنا" میں دیکھیے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بننا

کے لیے حبك اور وضَن کے الفاظ آئے ہیں۔

1: حبك

حباك بمعنی جولاہا اور حبك الثوب اس نے کپڑا بنا (م ق) اور حبَكَ حَابِكَ الثوب بمعنی جولاہے کا کپڑے کو کاریگری سے بننا، عمدہ بننا (منجد) اور حبك بمعنی راستہ بھی ہے (ج حبك) (مف، منجد) ارشاد باری ہے:
وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الۡحُـبُكِۙ‏ (سورۃ الذریات آیت 7)
اور (ستاروں اور سیّاروں کی) کہکشاؤں اور گزرگاہوں والے آسمان کی قَسم

2: وضن

وضن کے اصل معنی زرہ بانی کے ہیں۔ اور استعارۃ بمعنی کسی چیز کو مضبوطی کے ساتھ بننے پر بولا جاتا ہے (مف) اور موضون بمعنی باریک بنی ہوئی یا زر و جواہر سے بنی ہوئی چیز (منجد) ارشاد باری ہے:
عَلٰى سُرُرٍ مَّوۡضُوۡنَةٍۙ‏ مُّتَّكِـِٕـيۡنَ عَلَيۡهَا مُتَقٰبِلِيۡنَ‏ (سورۃ الواقعہ آیت 15، 16)
(یہ مقرّبین) زر نگار تختوں پر ہوں گے اُن پر تکیے لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے

ماحصل:

عام چیزوں سے بنائی کے لیے حبك اور زر بانی یا جواہرات کے جڑاؤ کے لیے وضن کا لفظ آتا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بوجھ

کے لیے ثقل، حمل، حمل، وقر، وقر، وزر، اضر، کلّ اور وزن اور موازین کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ثقل

مسافر کا سامان، بوجھ، وزن وغیرہ (منجد) اور یہ عموماً مادی اور حسّی بوجھ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور ثقل کی ضد خفیف ہے۔ بمعنی وزن میں ہلکا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:
انْفِرُوۡا خِفَافًا وَّثِقَالاً وَّجَاهِدُوۡا بِاَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ ذٰلِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ (سورۃ التوبہ آیت 41)
تم ہتھیار تھوڑے رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ اور اللہ کے رستے میں مال اور جان سے جہاد کرو۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ بشرطیکہ سمجھو۔
اور ثقل کی جمع اثقال آتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَتَحۡمِلُ اَثۡقَالَـكُمۡ اِلٰى بَلَدٍ لَّمۡ تَكُوۡنُوۡا بٰلِغِيۡهِ اِلَّا بِشِقِّ الۡاَنۡفُسِ‌ؕ اِنَّ رَبَّكُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌۙ‏ (سورۃ النحل آیت 7)
اور دوردراز شہروں میں جہاں تم سخت محنت کے بغیر پہنچ نہیں سکتے وہ تمہارے بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار نہایت شفقت والا ہے مہربان ہے۔
اور ثقیل بمعنی (وزنی اور بوجھل اشیاء) کا استعمال کبھی کبھی معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّا سَنُلۡقِىۡ عَلَيۡكَ قَوۡلاً ثَقِيۡلاً‏ (سورۃ المزمل آیت 5)
ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری فرمان نازل کریں گے
یہاں ثقیل سے مراد ایسی بات، کلام یا فرمان ہے ہو طبیعت کو بہت بوجھل محسوس ہو اور اس پر عمل پیرا ہونا بڑی ہمت کا کام ہو۔

2: حمل

حمل بوجھ اٹھانے اور بوجھ لادنے کو کہتے ہیں۔ اور حمل ایسے بوجھ کو کہتے ہیں جو کوئی چیز بباطن اپنے اندر اٹھائے ہوئے ہو۔ جیسے پیٹ میں بچہ، درخت کا پھل یا بادل میں پانی (مف) قرآن میں ہے:
فَلَمَّا تَغَشّٰٮهَا حَمَلَتۡ حَمۡلاً خَفِيۡفًا فَمَرَّتۡ بِهٖ (سورۃ الاعراف آیت 189)
سو جب وہ اسکے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔
اور حمل (زیر کے ساتھ) اس بوجھ کو کہتے ہیں جو حسی طور کسی کی پیٹھ پر لاد دیا جائے (مف) لیکن صاحب منتہی الارب کے نزدیک حمل کے معنی بار سر یا بار پشت ہے (م ا) یعنی اٹھانے والا جتنا زیادہ سے زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہو وہی اس کے لیے حمل ہے۔ اور یہ تعریف زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اور قرآن کریم سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے:
قَالُوۡا نَفۡقِدُ صُوَاعَ الۡمَلِكِ وَلِمَنۡ جَآءَ بِهٖ حِمۡلُ بَعِيۡرٍ وَّاَنَا بِهٖ زَعِيۡمٌ‏ (سورۃ یوسف آیت 72)
وہ بولے کہ بادشاہ کا کٹورہ کھویا گیا ہے اور جو شخص اسکو لے کے آئے اسکے لئے ایک بار شتر انعام اور میں اسکا ضامن ہوں۔

3: وقر

بوجھ کے لیے وقر کا استعمال معنوی طور پر ہوتا ہے۔ کہتے ہیں فی صدرہ وقر اس کے دل میں کینہ (کا بوجھ) ہے۔ (منجد) اسی طرح فی اذنه وقر اس کے کان میں بوجھ ہے یعنی اسے ثقل سماعت یا بہرا پن کا عارضہ ہے اور اونچا سنتا ہے۔ بعض لوگ وقر کا معنی کانوں کا میل بھی کرتے ہیں مگر پہلا معنی زیادہ ابلغ ہے۔ اور کانوں کا میل اسے محدود کر دیتا ہے۔ ارشادِ باری ہے،
وَّجَعَلۡنَا عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ اَكِنَّةً اَنۡ يَّفۡقَهُوۡهُ وَفِىۡۤ اٰذَانِهِمۡ وَقۡرًا‌ؕ وَاِذَا ذَكَرۡتَ رَبَّكَ فِىۡ الۡقُرۡاٰنِ وَحۡدَهٗ وَلَّوۡا عَلٰٓى اَدۡبَارِهِمۡ نُفُوۡرًا‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 46)
اور انکے دلوں پر بھی پردے ڈال دیتے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں اور انکے کانوں میں ثقل پیدا کر دیتے ہیں۔ اور جب تم قرآن میں اپنے پروردگار یکتا کا ذکر کرتے ہو تو وہ لوگ بدک جاتے اور پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں۔
اور وقر کا لفظ اسی معنوی بوجھ کی اس زیادہ سے زیادہ مقدار کو کہتے ہیں جو اٹھانے والے کی استطاعت کے مطابق ہو۔ ارشاد باری ہے:
وَالذّٰرِيٰتِ ذَرۡوًاۙ‏ فَالۡحٰمِلٰتِ وِقۡرًاۙ‏ (سورۃ الذریات آیت 1، 2)
اُڑا کر بکھیر دینے والی ہواؤں کی قَسم اور (پانی کا) بارِگراں اٹھانے والی بدلیوں کی قَسم

4: وزر

ابن فارس لکھتے ہیں کہ کوئی شخص جب اپنا کپڑا پھیلا کر اس میں اپنا بوجھ رکھ کر اور اٹھا کر چل دیتا ہے تو یہ وزر ہے۔ اور اسی لیے الذنب (گناہ) کو وزر (بوجھ) کہتے ہیں ۔ یعنی اپنے کیے ہوئے عمل کا بوجھ۔ اور ایسے ہی وزر اسلحہ کو بھی کہتے ہیں (جمع اوزار) (م ل) اور اوزر ایزارا کے معنی چھپانا، لے جانا اور پناہ دینا وغیرہ بھی آتے ہیں (منجد) اور اسی طرح کہ وزر کے معنی کسی پہاڑ میں جائے پناہ کے بھی آتے ہیں (مف) اور وزر کا استعمال اکثر گناہوں کے بار گراں کے لیے ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَهُمۡ يَحۡمِلُوۡنَ اَوۡزَارَهُمۡ عَلٰى ظُهُوۡرِهِمۡ‌ؕ اَلَا سَآءَ مَا يَزِرُوۡنَ‏ (سورۃ الانعام آیت 31)
اور وہ اپنے اعمال کے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہونگے۔ دیکھو جو بوجھ یہ اٹھا رہے ہیں بہت برا ہے۔

5: اصر

الاصر کے معنی (1) گرہ لگانے اور (۲) کسی چیز کو زبردستی روک لینے کے ہیں (مف، م ل) اس لحاظ سے اپنے عہد و پیمان کی پابندی اور شرعی احکام کی تعمیل کی ذمہ داری کا بار اصر ہے اور ابن فارس کے نزدیک ہر عقد، عہد اور قرابت اصر ہے (م ل) ارشاد باری ہے:
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِيۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا‌ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحۡمِلۡ عَلَيۡنَاۤ اِصۡرًا كَمَا حَمَلۡتَهٗ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا‌‌ۚ (سورۃ البقرۃ آیت 286)
اے پروردگار اگر ہم سے بھول یا چوک ہو گئ ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجیو۔ اے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔
پھر اصر کا اطلاق راہ حق کو اختیار کرنے میں ان رکاوٹوں پر بھی ہوتا ہے جو کسی معاشرہ کے رسم و رواج کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:
يَاۡمُرُهُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهٰٮهُمۡ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيۡهِمُ الۡخَبٰۤٮِٕثَ وَيَضَعُ عَنۡهُمۡ اِصۡرَهُمۡ وَالۡاَغۡلٰلَ الَّتِىۡ كَانَتۡ عَلَيۡهِمۡ (سورۃ الاعراف آیت 157)
وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں۔ اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو انکے لئے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھیراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو انکے سر پر اور گلے میں تھے اتارتے ہیں ،

6: کل

بمعنی محتاج ، عیال ، یتیم، در مانده، عاجز اور بوجھ کے ہیں۔ (منجد، م ر، م ل) اور کل سے مراد تربیت کی ذمہ داری یا نان و نفقہ کا بوجھ ہے۔ قرآن میں ہے:
وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً رَّجُلَيۡنِ اَحَدُهُمَاۤ اَبۡكَمُ لَا يَقۡدِرُ عَلٰى شَىۡءٍ وَّهُوَ كَلٌّ عَلٰى مَوۡلٰٮهُۙ اَيۡنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَاۡتِ بِخَيۡرٍ‌ؕ هَلۡ يَسۡتَوِىۡ هُوَۙ وَمَنۡ يَّاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ‌ۙ وَهُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ (سورۃ النحل آیت 76)
اور اللہ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک ان میں سے گونگا اور کسی کا غلام ہے بےاختیار و ناتواں کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔ اور اپنے مالک کو دوبھر ہو رہا ہے وہ جہاں اسے بھیجتا ہے کبھی اچھی خبر نہیں لاتا۔ کیا ایسا گونگا بہرا اور وہ شخص جو سنتا بولتا اور لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اور خود سیدھے رستے پر چل رہا ہے دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟

7: وزن اور موازین

وزن بمعنی کسی چیز کو تولنا، وزن کرنا۔ اور وزن وہ بوجھ جو ترازو کے کسی پلڑے میں تلنے کے لیے رکھا جائے ۔ اور میزان بمعنی ترازو بھی اور مقدار وزن بھی (جمع موازین) (مف - منجد) ارشاد باری ہے:
فَاَمَّا مَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِيۡنُهٗۙ‏ (سورۃ القارعۃ آیت 6)
پس وہ شخص کہ جس (کے اعمال) کے پلڑے بھاری ہوں گے

ماحصل:

  • ثقل: عموماً مسافر کے سامان اور مادی بوجھ کے لیے۔
  • حمل: ایسا بوجھ جو بباطن اٹھایا جائے اور حمل اٹھانے والے کی استطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ مادی بوجھ۔
  • وقر: عموماً معنوی بوجھ کے لیے آتا ہے۔ وقر: اٹھانے والے کی استطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ معنوی بوجھ۔
  • وزر: عموماً گناہوں کے لیے، گناہوں کا بار، پاپ کی گٹھڑی۔
  • اصرا: عہد و پیمان، شرعی احکام کی ذمہ داریاں یا رسم و رواج کی جکڑ بندیاں۔
  • کلّ: کسی بے اختیار و نا توان کی تربیت کے بوجھ کے لیے آتا ہے۔
  • وزن اور موازین: وہ بوجھ جو تلنے کے لیے ترازو میں رکھ دیا جائے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بو جھل (بھاری یا گراں) ہونا

کے لیے ثقل، کسل ،اد (اود) کبر اور کبیرہ کے الفاظ آئے ہیں۔

1: ثقل

بمعنی تول میں کسی چیز کا بھاری ہونا جیسے کہ آیت بالا سے واضح ہے۔

2: كسل

سستی کی وجہ سے طبیعت کا بوجھل اور بھاری ہونا اور الكسل بمعنی ایسے معاملہ میں گراں باری ظاہر کرنا جس میں گراں باری مناسب نہ ہو (مف) - منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَا مَنَعَهُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡهُمۡ نَفَقٰتُهُمۡ اِلَّاۤ اَنَّهُمۡ كَفَرُوۡا بِاللّٰهِ وَبِرَسُوۡلِهٖ وَلَا يَاۡتُوۡنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمۡ كُسَالٰى وَلَا يُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا وَهُمۡ كٰرِهُوۡنَ‏ (سورۃ التوبہ آیت 54)
اور انکے خرچ کئے ہوئے مالوں کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی سوائے اسکے کہ انہوں نے اللہ سے اور اسکے رسول سے کفر کیا اور نماز کو آتے ہیں تو سست و کاہل ہو کر اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے۔

3: اد

(اود) بمعنی بوجھ یا محنت و مشقت کی زیادتی کی وجہ سے طبیعت کا گراں بار ہونا (مف) ارشاد باری ہے:
وَسِعَ كُرۡسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ‌‌ۚ وَلَا يَـٔـُوۡدُهٗ حِفۡظُهُمَا ‌ۚ وَ هُوَ الۡعَلِىُّ الۡعَظِيۡمُ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 255)
اس کی بادشاہی اور علم آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے۔ اور اسے انکی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ ہے جلیل القدر ہے۔

4: کبر اور کبیرۃ

کسی کام کو مشکل اور بھاری سمجھنے کی وجہ سے طبیعت کا گراں بار ہونا۔ ارشاد باری ہے:
وَاِنۡ كَانَ كَبُرَ عَلَيۡكَ اِعۡرَاضُهُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِىَ نَفَقًا فِىۡ الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِىۡ السَّمَآءِ فَتَاۡتِيَهُمۡ بِاٰيَةٍ (سورۃ الانعام آیت 35)
اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گذرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی تلاش کرو پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ۔
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
وَاسۡتَعِيۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوةِ‌ؕ وَاِنَّهَا لَكَبِيۡرَةٌ اِلَّا عَلَى الۡخٰشِعِيۡنَۙ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 45)
اور رنج و تکلیف میں صبر اور نماز سے مدد لیا کرو اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر گراں نہیں جو عجز کرنے والے ہیں۔

ماحصل:

  • ثقل: وزن میں بوجھل ہونا۔
  • کسل: سستی کی وجہ سے طبیعت کا بوجھل ہونا۔
  • اد: محنت و مشقت کی زیادتی کی وجہ سے طبیعت کا بوجھل ہونا۔
  • کبر: کسی کام کو مشکل اور بھاری سمجھنے کی وجہ سے طبیعت کا بوجھل ہونا۔
بوجھ اٹھانا کیلیے دیکھیے۔ اُٹھانا
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بوڑھا

کے لیے شیخ، شیب، کہل، عجوز، معمر، عوان ، فَارِض کے الفاظ آئے ہیں۔

1: شیخ

بمعنی بزرگ۔ خواہ عمر کے لحاظ سے بڑا ہو، یا علم فضیلت اور مرتبہ میں بلند مقام رکھتا ہو۔ (منجد) شیخ در اصل تکریم کا لفظ ہے۔ شیخ المرأة عورت کے خاوند کو بھی کہ دیتے ہیں خواہ و چھوٹی عمر کا ہو۔ تاہم قرآن کریم سے یہ لفظ عمر کے لحاظ سے بوڑھا کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے (جمع شیوخ ) ارشاد باری ہے:
هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَةٍ ثُمَّ مِنۡ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخۡرِجُكُمۡ طِفۡلاً ثُمَّ لِتَبۡلُغُوۡۤا اَشُدَّكُمۡ ثُمَّ لِتَكُوۡنُوۡا شُيُوۡخًاؕ (سورۃ المومن آیت 67)
وہی ہے جس نے تمہاری (کیمیائی حیات کی ابتدائی) پیدائش مٹی سے کی پھر (حیاتیاتی ابتداء) ایک نطفہ (یعنی ایک خلیہ) سے، پھر رحم مادر میں معلّق وجود سے، پھر (بالآخر) وہی تمہیں بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر (تمہیں نشو و نما دیتا ہے) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ۔ پھر (تمہیں عمر کی مہلت دیتا ہے) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ

2: شیب

شاب بمعنی سفید بالوں والا ہونا۔ کہتے ہیں شَابَت رُؤوس الاکام بمعنی ٹیلوں کی چوٹیاں برف سے سفید ہو گئیں۔ اور اشیب کے معنی سفید سر والا - شیب اسی کی جمع ہے (منجد) اور شیب بمعنی بڑھاپا (مف)صاحب فقہ اللغتہ اسے جوانی اور بڑھاپے کا درمیانی حصہ قرار دیتے اور 30 سے 40 سال تک عمر بتلاتے ہیں (ف ل 91) بہرحال شیب وہی ہو سکتا ہے جس کے بال سفید ہونا شروع ہو چکے ہوں۔ ارشاد باری ہے:
فَكَيۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ كَفَرۡتُمۡ يَوۡمًا يَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِيۡبَاۖ (سورۃ المزمل آیت 17)
اگر تم کفر کرتے رہو تو اُس دن (کے عذاب) سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا‏

3: کھل

بمعنی ادھیڑ عمر کا ہونا اور کھل 30 سال سے 50 سال کی عمر والے کو کہتے ہیں اور کاہل الرجل سے مراد وہ آدمی کا شادی کرنا ہے (منجد) جبکہ صاحب فقہ اللغۃ اسے 40 سے 60 سال کا عرصہ قرار دیتے ہیں (ف ل ۹) ان کے اپنے الفاظ میں ثم ما دام بین الثلاثین و الاربعین فہو شاب، ثم ہو کہل الی ان یستوفی السّتّین۔ قرآن میں ہے:
وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِىۡ الۡمَهۡدِ وَكَهۡلاً وَّمِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ (سورۃ آل عمران آیت 46)
اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر دونوں حالتوں میں لوگوں سے یکساں گفتگو کرے گا اور نیکوکاروں میں ہو گا۔

4: عجوز:

صرف مونث کے لیے آتا ہے بمعنی بڑھیا عورت جس کے اولاد ہونا بند ہو چکی ہو۔ اور عجزہ کسی کے آخری بچہ کو کہتے ہیں۔ قرآن میں ہے،
قَالَتۡ يٰوَيۡلَتٰٓى ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوۡزٌ وَّهٰذَا بَعۡلِىۡ شَيۡخًا‌ؕ اِنَّ هٰذَا لَشَىۡءٌ عَجِيۡبٌ‏ (سورۃ ھود آیت 72)
اس نے کہا اے ہے میرے بچہ ہوگا۔ میں تو بڑھیا ہوں اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔

5: معمر

بمعنی عمر رسیدہ کافی عمر تک زندگی پانے والا۔ ارشاد باری ہے:
وَمَا تَحۡمِلُ مِنۡ اُنۡثٰى وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلۡمِهؕ وَمَا يُعَمَّرُ مِنۡ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنۡقَصُ مِنۡ عُمُرِهٖۤ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍؕ (سورۃ الفاطر آیت 11)
اور کوئی مادّہ حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے، اور نہ کسی دراز عمر شخص کی عمر بڑھائی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر (یہ سب کچھ) لوحِ (محفوظ) میں ہے

6، 7: عوان اور فارض

عان بمعنی ادھیڑ عمر والا ہونا۔ انسان، حیوان، عورت، مرد کے لیے آتا ہے۔ اور عوان بمعنی ادھیڑ عمر (منجد) اور فارض بمعنی عمر رسیدہ گائے یا بیل اور اس کی ضد بکر ہے۔ یعنی جو ابھی جوان نہ ہوا ہو۔ (مف) نیز بمعنی کنواری لڑکی (منجد) ارشاد باری ہے:
قَالُوۡا ادۡعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنۡ لَّنَا مَا هِىَ‌ؕ قَالَ اِنَّهٗ يَقُوۡلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّلَا بِكۡرٌؕ عَوَانٌۢ بَيۡنَ ذٰلِكَ‌ؕ فَافۡعَلُوۡا مَا تُؤۡمَرُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 68)
انہوں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے التجا کیجئے کہ وہ ہمیں یہ بتائے کہ وہ بیل کس طرح کا ہو۔ موسٰی نے کہا پروردگار فرماتا ہے کہ وہ بیل نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا بلکہ انکے درمیان یعنی جوان ہو سو جیسا تم کو حکم دیا گیا ہے ویسا کرو۔

ماحصل:

  • شیخ: بوڑھا کے لیے عام لفظ ہے۔ نیز عزت و شرف اور علم والے کو بھی شیخ کہہ دیتے ہیں۔
  • شیب: جس کے بال سفید ہونا شروع ہو چکے ہوں۔
  • کھل: چالیس سے ساتھ سال کی درمیانی عمر۔
  • عجوز: بڑھیا (یہ صرف مونث کے لیے استعمال ہوتا ہے)
  • معمّر: کہولت کے بعد کی عمر تک زندہ رہنے والا۔
  • عوان: ادھیڑ عمر۔ انسان، حیوان، عورت، مرد سب کے لیے مستعمل ہے۔
  • فارض: عمر رسیدہ گائے یا بیل کے لیے مخصوص لفظ۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بوسیدہ ہونا

کے لیے بلی (یبلی)، وہی، رمّم، رفت اور نخر کے الفاظ آئے ہیں۔

1: بلی

کسی قابل استعمال چیز کا پرانا ہو جانے کی وجہ سے کمزور پڑ جانا۔ بلی الثوب کپڑا پرانا ہو گیا (مف) پنجابی ہنڈ جانا۔
فَوَسۡوَسَ اِلَيۡهِ الشَّيۡطٰنُ قَالَ يٰۤاٰدَمُ هَلۡ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الۡخُلۡدِ وَمُلۡكٍ لَّا يَبۡلٰى‏ (سورۃ طہ آیت 120)
پس شیطان نے انہیں (ایک) خیال دلا دیا وہ کہنے لگا: اے آدم! کیا میں تمہیں (قربِ الٰہی کی جنت میں) دائمی زندگی بسر کرنے کا درخت بتا دوں اور (ایسی ملکوتی) بادشاہت (کا راز) بھی جسے نہ زوال آئے گا نہ فنا ہو گی

2: وھی

کسی چیز کے جوڑ ڈھیلے پڑ جانا (م ل) وَهيَ التَّوْبَ وَالْحَبْل، کپڑے یا رسی کا کہنگی کی وجہ سے پھٹنے لگنا (ف ل 39) چمڑے کا بوسیدگی کی وجہ سے پھٹ جانا (م - ل) قرآن میں ہے:
وَانْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِىَ يَوۡمَٮِٕذٍ وَّاهِيَةٌۙ‏ (سورۃ الحاقۃ آیت 16)
اور (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے اور یہ کائنات (ایک نظام میں مربوط اور حرکت میں رکھنے والی قوت کے ذریعے سیاہ) شگافوں پر مشتمل ہو جائے گی

3: رمّ

رمّ بمعنی قابل مرمت ہونا (بوجہ بوسیدگی) اور رمّ الحبل بمعنی رسی کا ٹوٹ جانا۔ اور رمّ العظم ہڈی کا بوسیدہ ہو جانا اور رمّۃ پرانی ہڈی کو کہتے ہیں جو بوسیدہ اور بھر بھری ہو چکی ہو (فل ۵۴) یا پھر پرانی رسی کے ٹکڑے کو جو علیحدہ ہو گیا ہو (منجد) ارشاد باری ہے:
مَا تَذَرُ مِنۡ شَىۡءٍ اَتَتۡ عَلَيۡهِ اِلَّا جَعَلَتۡهُ كَالرَّمِيۡمِؕ‏ (سورۃ الذریات آیت 42)
وہ جس چیز پر بھی گزرتی تھی اسے ریزہ ریزہ کئے بغیر نہیں چھوڑتی تھی

4: رفت

بمعنی توڑنا، کوٹنا اور رفت العظم بمعنی ہڈی کا چورا چورا ہونا۔ اور الرفات بمعنی ہر ٹوٹی ہوئی چیز، بوسیدہ (منجد) ارشاد باری ہے:
وَقَالُوۡۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا اَءِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ خَلۡقًا جَدِيۡدًا‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 49)
اور کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر بوسیدہ ہڈیاں اور چور چور ہو جائیں گے تو کیا ازسرنو پیدا ہو کر اٹھیں گے؟

5: نخر

نخر کے معنی خراٹے لینا، اور نخر کے معنی بوسیدہ ہونا اور ریزہ ہونا ہے (منجد) نخرة بمعنی ہڈی کا بوسیدہ ہو کر اندر سے کھوکھلی یا خالی ہو جانا یا اس میں سوراخ ہو جانا ہے۔ قرآن میں ہے:
يَقُوۡلُوۡنَ ءَاِنَّا لَمَرۡدُوۡدُوۡنَ فِىۡ الۡحَـافِرَةِؕ‏ ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةًؕ‏ (سورۃ النازعات آیت 10، 11)
(کفّار) کہتے ہیں: کیا ہم پہلی زندگی کی طرف پلٹائے جائیں گے کیا جب ہم بوسیدہ (کھوکھلی) ہڈیاں ہو جائیں گے (تب بھی زندہ کیے جائیں گے)

ماحصل:

  • بلی: کسی چیز کا بوسیدہ اور پرانا ہونا
  • وہی: کہنگی کی وجہ سے کسی چیز کے بند ڈھیلے پڑ جانا اور پھٹنے لگنا۔
  • رمّ: بوسیدگی کی وجہ سے ٹکڑے الگ ہونے لگنا۔
  • رفت: بوسیدگی کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہو جانا۔
  • نخر: (ہڈی کا) بوسیدگی کی وجہ سے اندر سے کھوکھلی ہو جانا۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بولنا

کے لیے لفظ، نَطَقَ ، نَصَحَ، أَعْرَب، أَعْجَمَ ، تکلّم اور لحن کے الفاظ آئے ہیں۔

1: لفظ اور لفظ (ف زیر کے ساتھ)

کے معنی منہ سے پھینکنا اور لفاظۃ منہ سے پھینکی ہوئی چیز یا دستر خوان سے جھاڑی ہوئی چیز کو کہتے ہیں اور لفظ بمعنی منہ سے بولا جانے والا کلمہ (جمع الفاظ) (منجد) اور لافظ چکی کو کہتے ہیں کہ وہ آٹا باہر پھینکتی جاتی ہے (م ق) اور لفظ معنی کسی بات کا زبان سے ادا ہو نا خواہ وہ ایک آدھ لفظ ہی ہو۔ ارشاد باری ہے:
مَا يَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَيۡهِ رَقِيۡبٌ عَتِيۡدٌ‏ (سورۃ ق آیت 18)
وہ مُنہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے

2: نطق

ایسی بات کہنا جس کے معنی سمجھ میں آ سکیں۔ کہتے ہیں المالُ النَّاطِقُ والصَّامت یعنی بولنے والے مال سے حیوان اور چپ رہنے والے مال سے سونا چاندی مراد ہے۔ اور حیوان بھی ناطق ہیں۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کی بولی سمجھ لیتے ہیں۔ اور منطق الطیر یعنی جانوروں کی بولی۔ لیکن یہ لفظ بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے۔ اور اہل منطق صرف انسان کو ہی حیوان ناطق کہتے اور نطق سے قوت گویائی مراد لیتے ہیں۔ (سب سے پہلے ارسطو نے انسان کو حیوان ناطق کہا تھا)۔ مگر لغوی لحاظ سے یہ لفظ ذوی العقول کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ارشادِ باری ہے:
وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ‏ اِنۡ هُوَ اِلَّا وَحۡىٌ يُّوۡحٰىۙ‏ (سورۃ النجم آیت 3، 4)
اور نہ یہ خواہش نفس سے کچھ بولتے ہیں۔یہ قرآن تو ایک وحی ہے جو انکی طرف بھیجی جاتی ہے۔
اور جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے کہ
وَوَرِثَ سُلَيۡمٰنُ دَاوٗدَ‌ وَقَالَ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّيۡرِ وَاُوۡتِيۡنَا مِنۡ كُلِّ شَىۡءٍؕ‌ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الۡفَضۡلُ الۡمُبِيۡنُ‏ (سورۃ النمل آیت 16)
اور سلیمان (علیہ السلام)، داؤد (علیہ السلام) کے جانشین ہوئے اور انہوں نے کہا: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی (بھی) سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔ بیشک یہ (اللہ کا) واضح فضل ہے
تو یہاں نطق کا لفظ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سمجھ لینے کی نسبت سے آیا ہے اور پرندوں کے بولنے کی نسبت سے۔
پھر جس طرح نطق ظاہری ہے اور اس سے مراد قابل فہم بات ہے نطق باطنی بھی ہے جس سے مراد فہم و ادراک یا زبان حال ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے:
هٰذَا كِتٰبُنَا يَنۡطِقُ عَلَيۡكُمۡ بِالۡحَقِّ‌ؕ اِنَّا كُنَّا نَسۡتَنۡسِخُ مَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ (سورۃ الجاثیۃ آیت 29)
یہ ہمارا نوشتہ ہے جو تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کرے گا، بیشک ہم وہ سب کچھ لکھوا (کر محفوظ کر) لیا کرتے تھے جو تم کرتے تھے

3: فصح

کے معنی کسی چیز کو آمیزش سے پاک و صاف کرنا۔ اور فصح اللبن کے معنی دودھ کے اوپر سے جھاگ اتار کر دودھ کو صاف کر لینا ہے۔ اور فصح الرجل اسی سے مستعار ہے جس کے معنی کسی شخص کا خوش گفتار ہونا اور اس کے کلام کا حشو و زوائد سے پاک صاف ہونا ۔ اور موزوں تر الفاظ کا استعمال کرنا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَاَخِىۡ هٰرُوۡنُ هُوَ اَفۡصَحُ مِنِّىۡ لِسَانًا فَاَرۡسِلۡهُ مَعِىَ رِدۡاً يُّصَدِّقُنِىۡٓ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اَنۡ يُّكَذِّبُوۡنِ‏ (سورۃ القصص آیت 34)
اور ہارون جو میرا بھائی ہے اسکی زبان مجھ سے زیادہ فصیح ہے تو اسکو میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ میری تصدیق کرے مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ میری تکذیب کریں گے۔

4، 5: اعرب، اعجم

الاعراب بمعنی کسی بات کو واضح کر دینا۔ اور اعرب عن نفسہ بمعنی اس نے بات کو وضاحت سے بیان کر دیا۔ العربی بمعنی وضاحت سے بیان کرنے والا بھی ہے اور واضح اور فصیح کلام بھی (مف) ارشاد باری ہے:
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ قُرۡءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ‏ (سورۃ یوسف آیت 2)
ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھ سکو۔
اور العجمة کے معنی ابہام اور اخفا کے ہیں اور الاعجم اس شخص کو کہتے ہیں جس کی زبان فصیح نہ ہو خواہ وہ زبان عربی ہی کیوں نہ ہو۔ اہل عرب اپنے آپ کو فصیح زبان کے مالک اور دوسروں کو غیر فصیح تصور کرتے تھے اور تمام غیر عرب کو العجم کہتے تھے۔ الْعَجمی اسی کی طرف منسوب ہے اور چوپایوں کو بھی عجماء کہتے ہیں کہ وہ اپنے ما فی الضمیر کو ٹھیک طور پر ادا نہیں کر سکتے۔
ارشاد باری ہے:
وَلَوۡ جَعَلۡنٰهُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِيًّا لَّقَالُوۡا لَوۡلَا فُصِّلَتۡ اٰيٰتُهٗؕ ءَؔاَعۡجَمِىٌّ وَّعَرَبِىٌّ‌ ؕ قُلۡ هُوَ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا هُدًى وَشِفَآءٌ‌ (سورۃ حم سجدۃ آیت 44)
اور اگر ہم اس (کتاب) کو عجمی زبان کا قرآن بنا دیتے تو یقیناً یہ کہتے کہ اِس کی آیتیں واضح طور پر بیان کیوں نہیں کی گئیں، کیا کتاب عجمی ہے اور رسول عربی ہے (اِس لئے اے محبوبِ مکرّم! ہم نے قرآن بھی آپ ہی کی زبان میں اتار دیا ہے۔)

6: تكلم

کلّم بمعنی کام کرنا یا بات کرنا اور تکلّم بمعنی بولنا یا بات کو منہ پر لانا ہے۔ ارشاد باری ہے:
يَوۡمَ يَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَالۡمَلٰٓٮِٕكَةُ صَفًّاۙ لَّا يَتَكَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَهُ الرَّحۡمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا‌‏ (سورۃ النباء آیت 38)
جس دن جبریل امین اور دوسرے فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے تو کوئی بول نہ سکے گا۔ مگر جس کو رحمٰن اجازت بخشے اور وہ بات بھی درست ہی کہے۔

7: لحن

بمعنی عام مستعمل طریقہ اور اسلوب سے پھیر دینا اور لحن القول بمعنی مروجہ طرز بیان یا انداز گفتگو سے ہٹ کر کوئی دوسرا طریقہ استعمال کرنا اور الحن فصیح کلام کو بھی کہتے ہیں (م ق) اور زبان آور اور فصیح شخص کو بھی (مف) اور لحّن بمعنی سریلی آواز سے پڑھنا ہے۔ لحن داؤدی مشہور ہے۔ تاہم لحن کا اصل معنی لہجہ کی تبدیلی ہے کہ اس سے ایک ہی فقرہ کبھی مثبت اور کبھی منفی اور کبھی استفہامیہ بن جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَلَوۡ نَشَآءُ لَاَرَيۡنٰكَهُمۡ فَلَعَرَفۡتَهُمۡ بِسِيۡمٰهُمۡ‌ؕ وَلَتَعۡرِفَنَّهُمۡ فِىۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِ‌ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ اَعۡمَالَكُمۡ‏ (سورۃ محمد آیت 30)
اور اگر ہم چاہیں تو آپ کو بلاشبہ وہ (منافق) لوگ (اس طرح) دکھا دیں کہ آپ انہیں ان کے چہروں کی علامت سے ہی پہچان لیں، اور (اسی طرح) یقیناً آپ ان کے اندازِ کلام سے بھی انہیں پہچان لیں گے، اور اﷲ تمہارے سب اعمال کو (خوب) جانتا ہے

ماحصل:

  • لفظ: جو کچھ بھ منہ سے نکلے وہ لفظ ہے۔ منہ سے کچھ کہنا۔
  • نطق: قابل فہم بات کہنا۔
  • فصح: خوش گفتار ہونا، حشو و زوائد سے پاک بات کرنا۔
  • اعرب: وضاحت سے بولنا۔
  • اعجم: غیر فصیح اور مبہم بات کرنا۔
  • تکلّم: کسی با معنی بات کا زبان پر لانا، جسے دوسرا سن رہا ہو۔
  • لحن: عام روش سے ہٹ کر کوئی دوسرا انداز گفتگو اختیار کرنا۔
نیز دیکھیے "بات کرنا"۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بہانا اور بہنا

کے لیے اسال، أفاض ، سكب ، سفك ، سفح ، فجر اور جری کے الفاظ آئے ہیں۔

1: اسال

سال (سیل) کے معنی مائع اشیاء کا بہنا یا بہ نکلنا اور سیل کے معنی بہنے والا پانی، سیلاب اور سیّال بمعنی زور سے بہنے والا (منجد) نیز ہر بہنے والی چیز کو سیال کہتے ہیں۔ اور اسال کے معنی کسی (بہنے والی یا مائع چیز کو) بہا دینا۔ ارشاد باری ہے:
وَلِسُلَيۡمٰنَ الرِّيۡحَ غُدُوُّهَا شَهۡرٌ وَّرَوَاحُهَا شَهۡرٌۚ وَ اَسَلۡنَا لَهٗ عَيۡنَ الۡقِطۡرِؕ (سورۃ سبا آیت 12)
اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے (ہم نے) ہوا کو (مسخّر کر دیا) جس کی صبح کی مسافت ایک مہینہ کی (راہ) تھی اور اس کی شام کی مسافت (بھی) ایک ماہ کی راہ ہوتی، اور ہم نے اُن کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا

2: أفاض

فاض (فیض) کے معنی کسی چیز کا بسہولت جاری ہو جانا ( م ل ) یا پانی کا کسی جگہ سے اچھل کر بہہ نکلنا (مف)۔ کہتے ہیں افاض السیل پانی کا کثرت سے ہونا۔ اور وادی کے کناروں سے بہہ نکلنا۔ اور فاضت عینہ یعنی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اور افاض کے معنی (پانی وغیرہ کا) بسہولت بہانا۔ کہتے ہیں افاض اناہ اس نے اپنا برتن لبالب بھرا کہ پانی اوپر سے نیچے گرنے لگا۔ گویا اس کا اصل معنی (OVER FLOW) ہوتا ہے۔ قرآن میں ہے:
وَنَادٰىۤ اَصۡحٰبُ النَّارِ اَصۡحٰبَ الۡجَـنَّةِ اَنۡ اَفِيۡضُوۡا عَلَيۡنَا مِنَ الۡمَآءِ اَوۡ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ‌ؕ قَالُـوۡۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الۡـكٰفِرِيۡنَۙ‏ (سورۃ الاعراف آیت 50)
اور دوزخی بہشتیوں سے گڑگڑا کر کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ یا جو رزق اللہ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی دو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں نعمتیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔

3: سكب:

کے معنی (پانی وغیرہ کا) گرانا اور بہانا ہے۔ اور السكب لگا تار بارش کو (منجد) یا موٹے موٹے قطروں والی بارش کو (م ل) کہتے ہیں جس کا پانی بہہ نکلے۔ اور الاسكوب بمعنی لگاتار جھڑی (منجد)، گویا سکب میں پانی وغیرہ کے گرنے یا بہنے کے ساتھ تسلسل یا دوام کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ اور ماء مسکوب بمعنی جَارٍ دَائِما (م ق) قرآن میں ہے:
وَّ مَآءٍ مَّسۡكُوۡبٍۙ‏ (سورۃ الواقعۃآیت 31)
اور بہتے چھلکتے پانیوں میں

4: سفک

بمعنی خون یا پانی بہانا۔ لیکن اس کا اطلاق زیادہ تر خون بہانے پر ہوتا ہے۔ اور سفّاک خونریز انسان کو کہتے ہیں (م ا) ارشاد باری ہے:
وَاِذۡ اَخَذۡنَا مِيۡثَاقَكُمۡ لَا تَسۡفِكُوۡنَ دِمَآءَكُمۡ وَلَا تُخۡرِجُوۡنَ اَنۡفُسَكُمۡ مِّنۡ دِيَارِكُمۡ ثُمَّ اَقۡرَرۡتُمۡ وَاَنۡتُمۡ تَشۡهَدُوۡنَ‏ (سورۃ البقرۃ آیت 84)
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا اور اپنے کو ان کے وطن سے نہ نکالنا تو تم نے اقرار کر لیا اور تم اس بات کو مانتے بھی ہو۔
5: سفح
کے معنی بھی لغوی لحاظ سے خون یا پانی بہانے کے ہیں (مف) اور بمعنی کسی بہنے والی چیز کا سرعت سے بہنا اور جاری ہونا ( فق ل 257) قرآن میں دما مسفوحا بہتا ہوا خون کے معنوں میں آیا ہے۔ تاہم اس لفظ کا عموماً استعمال منی کا پانی ناجائز طور پر بہانے یا بد کاری کرنے کے لیے ہوتا ہے، مسافح کے معنی بد کار مرد اور مسافحة بمعنی بد کار عورت۔ ارشادِ باری ہے:
وَاُحِلَّ لَـكُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمۡ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا بِاَمۡوَالِكُمۡ مُّحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ (سورۃ النساء آیت 24)
اور ان محرمات کے سوا دوسری عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کر لو بشرطیکہ نکاح سے مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ کہ شہوت پرستی۔

6: فجر

فجر کے اصل معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھاڑنا کے ہیں (مف) بہنے والی چیزوں کے متعلق اس کا استعمال وسعت پر دلالت کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَقَالُوۡا لَنۡ نُّـؤۡمِنَ لَـكَ حَتّٰى تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ يَنۡۢبُوۡعًاۙ‏ (سورۃ بنی اسرائیل آیت 90)
اور کہنے لگے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ عجیب و غریب باتیں نہ دکھاؤ یعنی یا تو ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کر دو۔
بہنا کے لیے سال اور فاض اوپر گزر چکے۔ ان کی مثالیں دیکھیے:
اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِيَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحۡتَمَلَ السَّيۡلُ زَبَدًا رَّابِيًا (سورۃ الرعد آیت 17)
اسی نے آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے پھر پانی پر پھولا ہوا جھاگ آ گیا۔
وَاِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَى الرَّسُوۡلِ تَرٰٓى اَعۡيُنَهُمۡ تَفِيۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَـقِّ‌ۚ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰهِدِيۡنَ‏ (سورۃ المائدۃ آیت 83)
اور جب اس کتاب کو سنتے ہیں جو اس پیغمبر محمد ﷺ پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ انکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اسلئے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی۔ اور یہ اللہ کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے۔

7: جری

(جریا و جریانا) اپنی اصل کے لحاظ سے یہ لفظ پانی اور اسی طرح کی سیال چیزوں کے بہنے اور بہتے جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے (مف) جیسے ارشاد باری ہے:
فِيۡهَا عَيۡنٌ جَارِيَةٌ‌ۘ‏ (سورۃ الغاشیۃ آیت 12)
اس میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے
پھر یہ لفظ ہر اس چیز کے لیے استعمال ہونے لگا جو دور تک یا دیر تک بہتی اور چلتی رہتی ہیں۔
گویا ظرف زمانی اور مکانی دونوں صورتوں میں اس کا استعمال عام ہو گیا۔ جیسے ہواؤں یا شمس یا قمر کے چلنے اور چلتے رہنے کے لیے اس کا استعمال قرآن کریم میں موجود ہے۔ پر اس کا استعمال معنوی طور پر بھی ہوتا ہے۔ سنت جاریہ مشہور لفظ ہے۔

ماحصل:

  • اسال: کسی بھی بہنے والی چیز کو بہانا۔
  • فاض: کسی بہنے والی چیز کا کنارے سے بہنے لگنا۔
  • سکب: کسی بہنے والی چیز کا بکثرت گرانا کہ بہہ نکلے۔
  • سفک: خون بہانا کے لیے عام استعمال ہے۔
  • سفح: شہوت رانی کے لیے عام استعمال ہے۔
  • فجر: کسی چیز کا وسیع و عریض رقبہ میں بہنا۔
  • جری: کسی چیز کا دور تک یا دیر تک بہتے رہنے یا چلتے جانا ہے۔
 

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن

بہانہ – بہانہ بنانا

کے لیے عذر، عذّر، اعتذر اور فتنۃ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں۔

1: العذر

بمعنی کسی الزام کو دور کرنے کے لیے کوئی وجہ پیش کرنا ہے۔ امام راغب کے الفاظ میں ایسی کوشش جس سے انسان اپنے گناہوں کو مٹا دینا چاہے اور عذر کے معنی عذر قبول کرنا، عذّر کے معنی جھوٹا بہانہ یا کوئی جھوٹ موٹ وجہ بیان کرنا اور اعتذر بمعنی عذر پیش کرنا ہے۔ اب اس عذر کی بھی تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم فتنۃ ہے۔

2: فتنۃ

یہ کہ انسان جھوٹ سے کام لے کر اس الزام یا گناہ ہی سے انکار کر دے۔ اس قسم کے لیے قرآن نے فتنۃ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ لَمۡ تَکُنۡ فِتۡنَتُہمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡا وَ اللّٰہ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشۡرِکِیۡنَ (سورۃ الانعام آیت 23)
تو ان سےکچھ عذر نہ بن پڑے گا اور بجز اسکے کچھ چارہ نہ ہوگا کہ کہیں اللہ کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے۔

2: عذر

عذر کی دوسری قسم یہ ہے کہ انسان کوئی غلط وجہ یا جھوٹا بہانہ پیش کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے لیے قرآن نے عذر کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَ جَآءَ الۡمُعَذِّرُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ لِیُؤۡذَنَ لَہمۡ وَ قَعَدَ الَّذِیۡنَ کَذَبُوا اللّٰہ وَ رَسُوۡلَہ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡہمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (سورۃ التوبہ آیت 90)
اور صحرا نشینوں میں سے بھی کچھ لوگ عذر کرتے ہوئے تمہارے پاس آئے کہ انکو بھی اجازت دی جائے۔ اور جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول سے جھوٹ بولا وہ گھر میں بیٹھ رہے۔ سو جو لوگ ان میں سے کافر ہوئے ہیں انکو دکھ دینے والا عذاب پہنچے گا۔

3: تیسری قسم

اور تیسری قسم یہ ہے وجہ فی الواقعہ درست اور معقول ہے۔ اس لیے عذر اور معذرۃ کے الفاظ قرآن میں آئے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
وَ اِذۡ قَالَتۡ اُمَّۃٌ مِّنۡہمۡ لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَۨا ۙ اللّٰہ مُہۡلِکُہمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ قَالُوۡا مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ لَعَلَّہمۡ یَتَّقُوۡنَ (سورۃ الاعراف آيت 164)
اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنکو اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے تو انہوں نے کہا اس لئے کہ تمہارے پروردگار کے سامنے معذرت کر سکیں اور عجب نہیں کہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں۔

ماحصل:

درست اور معقول وجہ پیش کرنے کے لیے عذر اور معذرة، جھوٹا بہانہ بنانے کے لیے تعذیر اور الزام سے یکسر انکار کر دینے کے لیے فتنہ کا لفظ آیا ہے۔
 
Top