بیت بازی کا کھیل

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
ایسا نہ ہو کہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کرسکو

اللہ کرے جہاں کو میری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

نامعلوم
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے
جب درد سے رک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا اندوہِ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن جائیں گے مجھ سے مرے آنسو مری آہیں


فیض احمد فیض
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یاس کہتی ہے نکل آرزو کہتی ہے ٹھہر
نزع میں دم بھی عجب طرح کی مشکل میں رہا

شوق کہتا ہے پہنچ جاؤنگا میں مقصد تک
ضعف کہتا ہے کہ میں‌ پہلی ہی منزل میں رہا
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
اس سے تو تھا مرے لئے بہتر کہیں عدم
دو دن کی زندگی مجھے بدنام کر گئی

اے شاد کیا کہوں تری شیریں بیانیاں
جو بات تو نے کی مرے دل میں اتر گئی


خانبہادر سید علی محمد شاد​
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
انا کا بوجھ اُٹھا کر جھک پڑے تہذیب کا سر
تو پھر مقتل میں اپنا سر کٹانا بند کردیں

نہیں چلتا ہے زور اس کا کسی سرکش ہوا پر
تو کیا ہم بھی چراغوں کو جلانا بند کردیں
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یہ پیار کا گلشن ہے، یہاں چھاؤں نہ ڈھونڈو
چھلتی ہے یہاں دھوپ ہر ایک شاخِ شجر سے

ہے تیز بہت وقت کی رفتار سنبھل کے
چادر نہ اُتر جائے رئیس آپ کے سر سے


رئیس اختر
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
اضواء بہن آپ نے ایک شعر کو شیر بنا دیا۔ ^o^||3 :::^^::: :-(||> :-(||>

یہ اور بات ہے ہو جائے معجزہ کوئی!
یہ غم خوشی میں بدل جائے ہو نہیں سکتا

ذرا یہ جان نکل جائے تو ملیں گے ضرور
کہ زندگی میں تو اب ایسا ہو نہیں سکتا

عدیل زیدی​
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یہ تیرگی مرے گھر کا ہی مقدر کیوں‌ہو؟؟
میں‌تیرے شہر کےسارے دیئے بجھا دوں گا

ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں‌
ہرے شجر سے پرندے میں‌خود آڑا دوں گا


محسن نقوی
 

محمد شہزاد حفیظ

وفقہ اللہ
رکن
یہ جو اِک مور سا میرے آنگن میں ہے
جب نہیں بولتا میں نہیں بولتی

میرے پاؤں سے دھرتی کھسکنے لگی
جب بھی ماں نے کہا میں نہیں بولتی
 
Top